میں(مولف)کہتا ہوں کہ یہ نور مذکورہ تمام چیزوں کو شامل ہے،واللہ اعلم۔
(3)عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے‘ وہ بیان کرتے ہیں:
’’ایک وقت کی بات ہے کہ جبریل امین علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ یکایک آواز[1] سنی ‘ تو اپنا سراٹھایا اور فرمایا:یہ آسمان کاایک دروازہ ہے جو آج کھلا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں کھلا،اس سے ایک فرشتہ نازل ہوا،توانہوں(جبریل)نے فرمایا:یہ ایک فرشتہ ہے جو آج ہی زمین پر اترا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں اترا،اس(اترنے والے)نے سلام کیا اور کہا:آپ ان دو نوں روشنیوں سے خوش ہوجایئے جو آپ کو عطا ہوئے ہیں‘آپ سے پہلے کسی بھی نبی کو عطا نہ ہوئے،(وہ ہیں:)سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری آیات،آپ ان دونوں میں سے جو حرف بھی پڑھیں گے آپ کو ضرور عطا ہوگا‘‘[2]۔
امام قرطبی رحمہ اللہ اس کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’فرشتہ کا یہ کہنا کہ آپ دو روشنیوں سے خوش ہوجایئے‘‘ یعنی دو عظیم اور روشن چیزوں سے خوش ہوجایئے،جن کے ذریعہ آپ ان کے پڑھنے والوں کو روشنی عطا کریں گے،اس وصف سے سورۂ فاتحہ کو اس لئے خاص کیا گیا ہے کہ سورۂ فاتحہ اجمالی طور پر ایمان‘ اسلام اور احسان کے معانی پر مشتمل ہے،اور یہ چیزیں مجموعی طور پردینی قواعد کے اصول اور علوم ومعارف کی کنجیوں کو شامل ہیں،اور سورۂ بقرہ کو اس وصف کے ساتھ اس لئے خاص کیا گیا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح وثنا اور ان آیات کی حسن اتباع،ان کے معانی کو تسلیم کرنے،اللہ سے رونے اور گڑگڑانے اور تمام امور میں اللہ کی طرف رجوع ہونے کے ذکر کے ذریعہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی تعریف وستائش پر مشتمل ہے اور ان کے جاننے کے بعد جو اس میں ان کی دعا کی قبولیت کا بیان ہے،کہ پھر اللہ نے ان سے تخفیف کردی،انہیں بخش دیا اوروہ نصرت ومدد سے ہمکنار ہوئے،اور اس میں ان کے علاوہ بھی بہت سی باتیں ہیں جن کی جستجو باعث طوالت ہے‘‘[3]۔
|