Maktaba Wahhabi

456 - 532
تعظیم ‘ ان کے احترام سے ‘ ان کی ادائیگی اور بندے کی استطاعت کے مطابق ان کی تکمیل سے ہوتی ہے‘ اور اس تعظیم کا صدور دلوں کے تقویٰ سے ہوتا ہے‘ کیونکہ ان کی تعظیم کرنے والا دراصل اپنے تقویٰ اور ایمان کی صحت کی شہادت دیتا ہے‘ کیونکہ ان(شعائر)کی تعظیم اللہ کی تعظیم و تکریم کے تابع ہے[1]،ارشاد باری ہے: ﴿ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ(٣٢)[2]۔ اور جو اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ کی جانب سے ہے۔ (25)اعمال کی درستی اور قبولیت:تقویٰ ہی سے اعمال درست اور قبولیت سے سرفراز ہوتے ہیں: اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا(٧٠)يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَن يُطِعِ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا(٧١)[3]۔ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور راست گوئی سے کام لو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی اصلاح فرما دے اور تمہارے گناہ بخش دے،اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے وہ بڑی عظیم کامیابی سے ہمکنار ہوگیا۔ چنانچہ اللہ نے خفیہ و علانیہ طور پر تقویٰ کا حکم دیا ہے اور اس میں سے راست گوئی کو خاص قرار دیا ہے اور یہ راست گوئی یقین کی دشواری کے وقت وہ بات ہے جو حق وصداقت کے مطابق یا اس سے قریب ہو‘ جیسے تلاوت قرآن‘ ذکر‘ بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا‘ علم سیکھنا اور سکھانا‘ علمی مسائل میں درستگی تک پہنچنے کی خواہش و جستجو اور نرم و نازک گفتگو وغیرہ۔ اس کے نتیجہ میں عمل کی درستی اور گناہوں کی بخشش حاصل ہوتی ہے‘ الغرض تقویٰ سے تمام امور درست ہوجاتے ہیں اورہر برائی ختم ہوجاتی ہے[4]۔
Flag Counter