Maktaba Wahhabi

168 - 532
تیسرا مسلک:اچھی نیت کا مقام اور اس کے ثمرات: نیت عمل کی اساس و بنیاد اور اس کا وہ ستون ہے جس پر عمل کا دار ومدار ہے‘ کیونکہ نیت عمل کی روح اور اس کا قائد و رہبر ہے،اور عمل نیت کے تابع ہے،عمل کی صحت و خرابی نیت کی صحت و خرابی پر موقوف ہے،نیک نیتی سے توفیق اور بد نیتی سے رسوائی حاصل ہوتی ہے،نیت ہی کے اعتبار سے دنیا و آخرت کے مراتب و درجات میں فرق آتا ہے[1]،اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’إنما الأعــــمال بالنیــــات وإنما لکل امـــرئٍ ما نــوی ‘‘[2]۔ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے،اور ہر شخص کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہے ۔ اور اللہ عز وجل کا ارشاد ہے: ﴿لَّا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّن نَّجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا(١١٤)[3]۔ ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی خیر نہیں،ہاں! بھلائی اس کے مشوروں میں ہے جو خیرات کا یانیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم دے،اور جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادے سے یہ کام کرے اسے ہم یقینا بہت بڑا اجر و ثواب دیں گے۔ یہ ارشاد ربانی نیت کے مقام و مرتبہ اور اس کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے،نیز یہ کہ اللہ کی طرف دعوت دینے والوں اور دیگر مسلمانوں کے لئے نیت کی اصلاح ضروری ہے،کیونکہ اگر نیت درست ہوگی تو بندہ بیش بہا اجر و ثواب سے نوازا جائے گا،اگر چہ اس نے محض سچی نیت ہی کی ہو عمل نہ کیا ہو،اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
Flag Counter