Maktaba Wahhabi

368 - 532
پکارے،حالانکہ وہ پکاری جانے والی ذات خود اللہ کے وسیلہ کی متلاشی،اس کی رحمت سے پُر امید،اور اس کے عذاب سے خائف ہو،لہٰذا جس کسی نے کسی مردہ،یا غائبنبی یا صالح(نیکو کار)کو استغاثہ(فریادرسی)یا کسی اور لفظ سے پکارا،تو اُس نے اُس شرک اکبر کا ارتکاب کیا جسے اللہ تعالیٰ توبہ کے بغیر نہیں معاف کرسکتا۔جس کسی نے کسی نبی،یا صالح کی ذات میں غلو کیا،یا اس میں کسی بھی قسم کی عبادت کا تصور کیا،مثلاً یہ کہا کہ’’ اے میرے فلاں سردار میری مدد کیجئے‘‘ یا’’میری اعانت کیجئے‘‘ یا ’’میری فریاد سنیئے‘‘ یا ’’مجھے روزی دیجئے‘‘ یا ’’میں آپ کی حفاظت میں ہوں ‘‘ وغیرہ،تو یہ ساری باتیں شرک باللہ اور ضلالت و گمراہی ہیں،اس کے مرتکب سے توبہ کروائی جائے گی،اگر توبہ کرلے تو ٹھیک ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اسی لئے بھیجے ہیں اور کتابیں اسی لئے اتاری ہیں کہ دنیا میں صرف اسی کی عبادت کی جائے،اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کیا جائے۔ دوسری قسم:میت کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا،یہ دین اسلام میں ایک نوایجاد بدعت ہے،البتہ یہ قسم پہلی قسم کی طرح نہیں ہے،کیونکہ یہ شرک اکبر تک نہیں پہنچتی،اور لوگ جوانبیاء و صالحین کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں،مثلاً کہتے ہیں:’’اے اللہ میں تجھ سے تیرے نبی،یا تیرے انبیاء،یا تیرے فرشتوں،یا تیرے نیک بندوں،یا شیخ فلاں کے حق یا اس کی حرمت کے وسیلہ سے،یا لوح و قلم کے واسطے سے تجھ سے دعا کرتا ہوں‘‘ وغیرہ،تویہ ساری باتیں بدترین قسم کی بدعات ہیں۔سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں صرف اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات،اعمال صالحہ(جیساکہ صحیح بخاری و مسلم میں اہل غار کے واقع ہمیں وارد ہے)اور زندہ حاضر مومن ومتقی کی دعا کا وسیلہ جائز ہے۔ تیسری قسم:کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ قبروں کے پاس دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں،یا مسجد میں دعا کرنے کی بہ نسبت وہاں دعا کرنا زیادہ افضل ہے،اور پھراس غرض سے وہ قبروں کا قصد کرے،تو یہ ساری حرکتیں متفقہ طور پر حرام اور ناجائز ہیں،اس سلسلہ میں ائمہ اسلام میں کسی کا کوئی اختلاف ہمیں معلوم نہیں،چنانچہ یہ ایک ایسا عمل ہے جسے نہ تو اللہ تعالیٰ نے مشروع کیا ہے نہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے،اور نہ ہی صحابۂ کرام،تابعین اور ائمہ اسلام میں سے کسی نے انجام دیا ہے،صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم عہد رسالت کے بعد کئی
Flag Counter