Maktaba Wahhabi

388 - 532
ایک ہزار مرتبہ ہوتی ہے،وہ اس طرح سے کہ یہ نماز سو(100)رکعات کی ہے اور ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ ایک بار اور سورئہ اخلاص دس بار پڑھی جاتی ہے۔یہ ایک انتہائی لمبی اور پریشان کن نماز ہے،اور اس بارے میں جو بھی خبر یا اثر وارد ہے وہ یا تو ضعیف ہے یا موضوع،اور اس نماز کی وجہ سے عوام بڑے عظیم فتنے میں مبتلا ہیں،اور اس نماز کے سبب آبادی کی جن جن مساجد میں ہوتی ہے،وہ اس طرح سے کہ یہ نماز سو(100)رکعات کی ہے اور ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ ایک بار اور سورئہ اخلاص دس بار پڑھی جاتی ہے۔یہ ایک انتہائی لمبی اور پریشان کن نماز ہے،اور اس بارے میں جو بھی خبر یا اثر وارد ہے وہ یا تو ضعیف ہے یا موضوع،اور اس نماز کی وجہ سے عوام بڑے عظیم فتنے میں مبتلا ہیں،اور اس نماز کے سبب آبادی کی جن جن مساجد میں اس صلاۃ کا اہتمام کیا جاتا ہے ان میں بہت زیاد ہ آگ روشن کی جاتی ہے،اور رات بھریہ سلسلہ جاری رہتا ہے،اس میں فسق وفجور،اختلاط مردو زن،اور دیگر بہت ساری نا شائستہ ونازیبا حرکتیں ہوتی ہیں جو محتاج بیان نہیں،اور عبادت گزار عوام کے اس میں بڑے پختہ عقائد وابستہ ہوتے ہیں،شیطان لعین ان کی خاطر ان ساری چیزوں کو آراستہ کر تا ہے اور انہیں عین شعائر اسلام بناکر پیش کرتاہے‘‘[1]۔ امام حافظ ابن رجب رحمہ اللہ ایک بڑی عمدہ گفتگو کے بعد فرماتے ہیں:’’اور شام کے کچھ تابعین جیسے خالدبن معدان،مکحول،لقمان بن عامر وغیرھم شعبان کی پندرہویں شب کی تعظیم کرتے تھے اور اس میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے تھے،اس رات کی فضیلت لوگوں نے انہی سے لی ہے،اور بتایا جاتا ہے کہ ان لوگوں کو اس سلسلہ میں کچھ اسرائیلی آثار(یعنی یہودیوں اور نصرانیوں کی بیان کی ہوئی جھوٹی روایتیں اور من گھڑت قصے کہانیاں)مل گئے تھے۔اور جب یہ چیزان کے ذریعہ مختلف شہروں میں مشہور ہوئی تو لوگ اختلاف کرنے لگے،بعض لوگ ان کی بات مان کر ان کے موافق ہوگئے،ان میں بصرہ کے عابدوں وغیرہ کی بھی ایک جماعت تھی،جب کہ اکثر علمائے حجاز نے اس کا انکار کیا،ان میں سے عطاء،ابن ابی ملیکہ وغیرہما ہیں،اور یہی بات عبد الرحمن بن زید بن اسلم نے فقہائے اہل مدینہ سے بھی نقل فرمائی ہے،امام مالک کے اصحاب وغیرھم کا بھی یہی کہنا ہے،ان سبھوں نے ان ساری چیزوں کو بدعت قرار دیا ہے۔
Flag Counter