Maktaba Wahhabi

384 - 532
میں پیش آیا[1]۔ امام ابو شامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ بعض قصہ گوؤں کے حوالہ سے جو ذکر کیا جا تا ہے کہ واقعہ اسراء ماہ رجب میں پیش آیا،یہ بات اصحاب جرح وتعدیل کے نزدیک سراسر جھوٹ ہے‘‘[2]۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ ذکر فرماتے ہیں کہ:’’ شب اسراء کے بارے میں پتہ نہیں کہ وہ کونسی رات تھی‘‘[3]۔ علامہ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’یہ شب جس میں واقعۂ اسراء ومعراج رونما ہوا صحیح احادیث میں اس کی کوئی تعیین موجود نہیں ہے،نہ رجب میں اور نہ کسی اور مہینہ کی،اس رات کی تعیین کے سلسلہ میں جوروایتیں بھی وارد ہوئی ہیں وہ محدثین کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں،اور اس شب کے بُھلا دینے(نا معلوم رکھنے)میں بھی اللہ کی کوئی حکمت بالغہ کارفرما ہے‘‘[4]۔ اور اگر اس کی تعیین ثابت بھی ہوجائے تب بھی بلا دلیل خصوصیت کے ساتھ اس میں کسی قسم کی عبادت کرنا جائز نہیں [5]۔ ثانیاً:اصحاب ایمان اور اہل علم میں سے کسی سے بھی یہ بات ثابت نہیں کہ کسی نے شب اسراء و معراج کو دیگر راتوں پر کسی بھی قسم کی کوئی فضیلت دی ہو،اور یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم،آپؐ کے صحابۂ کرام،تابعین،اورتبع تابعین وغیرہم نے نہ تو اس شب میں کوئی جشن منایا،اور نہ ہی اسے کسی عبادت کے لئے خاص کیا،اور نہ ہی اس کا ذکر کیا،لہٰذا اگر اس شب میں تقریب منانے اور محفل معراج منعقد کرنے کی کوئی شرعی حیثیت ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اپنے قول یا فعل سے اس کی رہنمائی ضرورفرمائی ہوتی،اور اگر فی الحقیقت
Flag Counter