Maktaba Wahhabi

86 - 437
ابوجعفربن جریر(طبری)رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ سود کھانے والے اس طرح حواس باختہ ہوکراٹھیں گے جس طرح دنیا میں وہ شخص تھا جسے شیطان نے آسیب میں مبتلا کرکے مجنون بنادیا ہو۔امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی لکھا ہے کہ سود خور قبروں سے اس طرح اٹھیں گے جیسے وہ شخص جو شیطان کے آسیب کی وجہ سے مجنون بن گیا ہو۔حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ سودکھانے والے قیامت کے دن اپنی قبروں سےاس طرح اٹھیں گےجس طرح آسیب زدہ اورجسے شیطان نے دیوانہ بنادیا ہو، دیوانگی کی حالت میں کھڑا ہوتا ہے اور اس کے کھڑے ہونے کی یہ حالت نہایت مضحکہ خیز ہوتی ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:’’سودخور کو روز قیامت اس مجنون کی طرح اٹھایا جائے گا جس کا گلاگھونٹا جارہا ہو۔‘‘(ابن ابی حاتم)عوف بن مالک، سعید بن جبیر، سدی، ربیع بن انس، قتادہ اورمقاتل بن حیان سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ ا س شخص کا قول فاسد ہے جواس بات کا انکار کرتا ہے کہ جن انسان کو آسیب میں مبتلا کرسکتا ہے اورگمان کرتا ہے کہ یہ بعض طبیعتوں کا اپنا فعل ہوتا ہے کیونکہ شیطان انسان کے اند ر نہیں چل سکتا اورنہ اسے جنون میں مبتلا کرسکتا ہے۔ اس مسئلہ میں مفسرین کے بہت سے ارشادات ہیں، جو انہیں معلوم کرنا چاہیں، وہ کتب تفسیر میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب’’ايضاح الدلالة في عموم الرسالة للثقلين‘‘ جو کہ مجموع الفتاوی، ج۱۹، ص:۹سے۶۵تک موجود ہے، میں فرماتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ معتزلہ کی ایک جماعت مثلا جبائی اورابوبکر رازی وغیرہ نے جن کے آسیب زدہ کے جسم میں داخل ہونے کا انکار کیا ہے۔البتہ جنوں کے وجود کا انہوں نے انکار نہیں کیا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول احادیث سے جس طرح جنوں کا وجود ظاہر ہے، اس طرح انسانی جسم میں ان کا داخل ہونا ظاہر ہے لیکن ان کی یہ بات غلط ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ابوالحسن اشعری نے ‘‘مقالات اہلسنت والجماعت’’میں ذکر کیا ہے کہ اہل سنت کا یہ بھی قول ہے کہ جن آسیب زدہ کے جسم میں داخل ہوسکتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّ‌بَا ۔۔۔۔۔﴾ (البقرۃ۲ /۲۷۵) عبداللہ بن احمد بن حنبل بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی سے کہا کہ کچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ جن، انسانوں کے جسم میں داخل نہیں ہوسکتاتو انہوں نے فرمایا: بیٹا یہ لوگ غلط کہتے ہیں۔جن، انسانوں کے اندر داخل ہوکر اس کی زبان سے بات کرسکتا ہے، اس مسئلہ کو ہم نے اپنی جگہ پر تفصیل سے بیان کیا ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے مجموع الفتاوی، ج۲۴، ص:۲۷۶، ۲۷۷میں یہ بھی لکھا ہے کہ جنوں کا وجود کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورامت کے سلف اورائمہ کے اتفاق سے ثابت ہے، نیز باتفاق ائمہ اہلسنت والجماعت یہ بھی ثابت ہے کہ جن، انسان کے بدن میں داخل ہوسکتا ہے کہ ارشادباری تعالیٰ ہے:﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّ‌بَا﴾ (البقرۃ۲ /۲۷۵)صحیح بخاری میں ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’شیطان ابن آدم کے جسم میں یوں چل سکتا ہے، جس طرح خون کی گردش جاری ہے ۔‘‘ عبداللہ بن امام احمد بن حنبل بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی سے کہا کہ کچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ جن، انسانوں کے جسم میں داخل نہیں ہوسکتاتو انہوں نے فرمایا :’’بیٹا! یہ لوگ غلط کہتے ہیں۔جن، انسانوں کے اندر داخل ہوکر اس کی زبان سے بات کرسکتا ہے۔‘‘ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات فرمائی ہے یہ ایک مشہورامر ہے، چنانچہ دیکھاگیا ہے کہ آدمی جب آسیب زدہ ہوتا ہے تووہ ایسی زبان بولتا ہے جو ناقابل فہم ہوتی ہے اور اس کے جسم پر ایسی سخت ضرب لگائی جاتی ہے
Flag Counter