اس لیے کہ یہ گناہ اورظلم کی باتوں میں تعاون ہے اوراللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰه ۖ إِنَّ اللّٰه شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ (المائدۃ۵ /۲)
’’ اور(دیکھو)نیکی اورپرہیزگاری کےکاموں میں ایک دوسرےکی مددکیاکرواورگناہ اورظلم کےکاموں میں مددنہ کیاکرواوراللہ سےڈرتےرہوکچھ شک نہیں کہ اللہ کاعذاب سخت ہے ۔‘‘اورصحیح حدیث میں ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودکھانے، کھلانے اورلکھنے والے اوراس کے دونو ں گواہوں پر لعنت فرمائی، نیز فرمایاکہ وہ سب(گناہ میں)برابرہیں ۔‘‘(صحیح مسلم)
ہم غیر اسلامی ملک میں پڑھاتے ہیں اوراس کے بینکوں میں اپنی رقوم۔۔۔۔
سوال : ہم ایک غیر اسلامی ملک میں رہ رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں مال ودولت اس فراوانی سے عطا فرمایا ہے کہ ہم اس کی حفاظت کے لیے اسے امریکی بینکوں میں رکھنے پر مجبور ہیں، ہم مسلمان ہیں اسی لیے ہم سے بینکوں والے بہت خوش ہیں اوروہ ہمیں بیوقوف سمجھتے ہیں کیونکہ ہم سودی رقوم کو ان بینکوں میں چھوڑ دیتے ہیں تووہ مسلمانوں کے اس مال کو عیسائیت کی تبلیغ واشاعت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان اموال سے استفادہ نہیں کرسکتے ؟کیا ہم اسے فقیر مسلمانوں پر یا مسجدوں اوراسلامی مدارس کی تعمیر پر خرچ کردیں ؟کیا مسلمان، بینک سے اس سودی رقم کے لینے پر گناہ گارہوگا خواہ وہ اسے اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے مجاہدین ہی کو بطورعطیہ کیوں نہ دے دے؟
جواب : سودی بینکوں میں اپنے اموال کو رکھنا جائز نہیں خواہ یہ بینک مسلمانوں کے، ہوں یا غیر مسلموں کے کیونکہ اس میں گناہ اورظلم کے کاموں میں تعاون ہے خواہ آپ سود نہ بھی لیں پھر بھی سودی بینکوں میں رقوم رکھنا جائز نہیں ہے لیکن اگرکوئی شخص حفاظت کے لیے بینکوں میں رقوم رکھنے پر مجبور ہوجائے اور وہ سود نہ لے توامید ہے کہ ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہوگاارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ﴾ (الانعام۶ /۱۱۹)
’’جو چیزیں ہم نے تمہارے لیے حرام ٹھہرادی ہیں وہ ایک ایک کرکے بیان کر دی ہیں مگر اس صورت میں کہ ان کے (کھانے کے )لیےناچارہوجاؤ۔‘‘
اگرکوئی شخص سود لینے کے لیے ان بینکوں میں اپنی رقوم رکھے تو پھر یہ بہت بڑا گناہ ہے کیونکہ سود اکبر الکبائر میں سے ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی کتاب کریم میں اوراپنے رسول امین صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی حرام قراردیا ہے اوربتایا ہے کہ سود بالآخر نابود ہوجانے والا ہےاورجوشخص سودی لین دین کرتا ہے اس نے گویا اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے۔جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت کی فراوانی سے نوازاہو، انہیں چاہئے کہ وہ اسے نیکی اوراحسان کے کاموں اورمجاہدین کی مددکے لیے خرچ کریں، اللہ تعالیٰ انہیں اجروثواب عطافرمائے گااورخرچ کیے جانے والے مال کا نعم البدل بھی عطاکرے گا۔جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ (البقرۃ۲ /۲۷۴)
|