لیکن جس شخص کے پا س قرآن پہنچ گیا یا جس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچ گیا اوراس نے لبیک نہ کہا تواس پر حجت قائم ہوگئی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا ہے:
﴿وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ﴾ (الانعام۶ /۱۹)
’’اور یہ قرآن مجید مجھ پر اس لیے اتارا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے تم کو اور جس شخص تک وہ نہ پہنچ سکے آگاہ کردوں ۔‘‘
اورفرمایا:
﴿هَـٰذَا بَلَاغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنذَرُوا بِهِ﴾ (ابراھیم۱۴ /۵۲)
’’یہ(قرآن)لوگوں کے نام(اللہ کا پیغام ہے) تاکہ ان کو اس سے ڈرایا جائے ۔‘‘
جس شخص کے پاس قرآن اوراسلام پہنچ جائے اورپھر وہ دائرہ اسلام میں داخل نہ ہو تووہ کافر ہے۔صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !اس امت میں سے جو یہودی اورعیسائی بھی میر ے بارے میں سنے، پھر مرجائے اوراس دین پر ایمان نہ لائے جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے تووہ اہل جہنم میں سے ہوگا ۔‘‘(صحیح مسلم)اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بارے میں سننے ہی کو حجت قراردیا گیا ہے۔
حاصل کلام یہ کہ جودیاراسلام میں کفر کا اظہار کرےتو اس کا حکم کافروں جیسا ہے، باقی رہا یہ مسئلہ کہ وہ روز قیامت نجات پائے گا یا نہیں تویہ معاملہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سپرد ہے، اگر اسے دعوت نہیں پہنچی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بارے میں اس نے نہیں سنا تو قیامت کے دن اس کا امتحان ہوگا اوراس کی طرف جہنم کی آگ کی ایک گردن بھیجی جائے گی جیسا کہ حدیث اسود بن شریع میں آیا ہے کہ اس سے کہا جائے گا کہ اس میں داخل ہوجاؤ اوراگروہ داخل ہوگیا تو آگ اس کے لیے ٹھنڈی اورسلامتی والی بن جائے گی اوراگر اس نے آگ میں داخل ہونے سے انکار کیا تویہ گردن اس کے گرد لپٹ جائے گی اوروہ جہنم رسید ہوجائے گا۔(ہم اللہ تعالیٰ سے سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس تک دعوت نہ پہنچے جیسے کہ وہ لوگ جو اطراف دنیا میں رہتے ہیں یا جن کا تعلق اوقات فترت سے ہے یا دعوت تو پہنچے لیکن وہ مجنون اورفاترالعقل ہویا بے عقل ہوتو یہ اوران جیسے دیگر لوگ مشرکوں کے ان بچوں کی طرح ہیں جو چھوٹی عمر میں فوت ہوجائیں کہ مشرکوں کے وہ تمام بچے جو بلوغت سے پہلے فوت ہوجائیں، ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس وقت یہی جواب دیا تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان چھوٹے بچوں کے بارے میں سوال کیا گیا تھا ۔ان کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علم کا اظہار روز قیامت ان کے امتحان سے ہوگا جو امتحان میں کامیاب رہا، وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو ناکام رہا وہ جہنم رسید ہوگا۔ ((لا حول ولا قوة الاباللّٰه))
قرآنی اورغیرقرآنی تعویذ کا حکم
سوال : قرآنی اورغیرقرآنی تعویذ کاکیا حکم ہے؟
جواب: غیرقرآنی تعویذاگر ہڈیوں، طلسموں، گھونگوں اوربھیڑیئے کے بالوں وغیرہ کی صورت میں ہوں تو وہ منکر اورحرام ہیں اوران کی حرمت نص سے ثابت ہے، لہذا کسی بچے یا بڑے کے لیے تعویذوں کا استعمال جائز نہیں ہے، چنانچہ نبی کریم
|