مسلمانوں میں رہتے ہوئے اگرکوئی یہ کہے کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ شراب حرام ہے تو اس کا بھی یہ عذر قبول نہ ہوگابلکہ اس پر شراب کی حد جاری کی جائے گی یااگرکوئی یہ کہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ والدین کی نافرمانی حرام ہے تواس کی یہ بات درست تسلیم نہ کی جائے گی، بلکہ اسے سزادی جائے گی اورادب سکھایا جائے گایااگرکوئی یہ کہے کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ لواطت۔۔۔(ہم جنس پرستی)۔۔۔حرام ہے تواس کا یہ عذر قابل قبول نہ ہوگا اوراس پر حدجاری کی جائے گی کیونکہ یہ ظاہری امور ہیں جو مسلمانوں میں معروف ہیں اوریہ بات بھی معروف ہے کہ ان کے بارے میں اسلام کا نکتۂ نظر کیا ہے۔
ہاں!اگر کوئی شخص کسی ایسے علاقے میں ہو جہاں دوردورتک اسلام نہ ہو یاوہ افریقہ کے کسی ایسے گمنام علاقے میں ہو جہاں مسلمان نہ ہوں تو اس کا دعوی جہا لت قبول کیا جائے گااورجب وہ اس حالت میں فوت ہوجائے تواس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہوگا اوراس کا حکم اہل فترت جیسا ہوگا اورصحیح بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا روز قیامت امتحان ہوگا اگریہ امتحان میں کامیاب ہوئے اورانہوں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، توجنت میں داخل ہوں گےاوراگرنافرمانی کی توجہنم رسید ہوں گے ۔لیکن جو شخص مسلمانوں میں رہتے ہوئے کفرکا ارتکاب کرتا اورمعلوم شدہ فرائض وواجبات کو ترک کرتا ہے تو ایسے شخص کا عذر قابل قبول نہ ہوگا کیونکہ معاملہ بالکل واضح ہے ۔مسلمان بحمدا للہ موجود ہیں جو نماز پڑھتے، روزہ رکھتے اورحج کرتے ہیں اورجانتے ہیں کہ زنا، شراب اوروالدین کی نافرمانی حرام ہے اوریہ تمام باتیں مسلمانوں میں مشہورومعروف ہیں، لہذا ان حالات میں جہالت کا دعوی ایک باطل دعوی قرارپائے گا۔واللّٰہ المستعان۔
جادوگروں اورشعبدہ بازوں سے سوالات پوچھنے کا حکم
سوال : ریاض سے برادرصالح علوی بشرنے اپنے سوال میں یہ پوچھا ہے کہ یمن کے بعض علاقوں میں کچھ لوگ ہیں جو سادات کہلاتے ہیں اوریہ لوگ شعبدہ باز ہیں اوردین کے منافی کئی کام بھی کرتے ہیں مثلا یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ لوگوں کو پیچیدہ اورنازک بیماریوں سے شفا بخشنے کی قدرت رکھتے ہیں اوراس کی دلیل کے طور پر وہ اپنے جسم میں خنجر پیوست کرلیتے ہیں یا اپنی زبان کو کاٹ کر دوبارہ جوڑ لیتے ہیں اوراس سے انہیں کوئی ضررنہیں پہنچتا۔ان میں سے کچھ لوگ نماز پڑھتے ہیں اورکچھ نماز بھی نہیں پڑھتے ۔خود تو دوسرے خاندانوں میں شادی کرلیتے ہیں لیکن اپنے خاندان کی عورت کا دوسرے خاندان کے کسی مرد کو رشتہ نہیں دیتے۔ مریضوں کے لیے دعاکرتے ہوئے اس طرح کہتے ہیں کہ اے اللہ !اےفلاں !۔۔۔اپنے آباؤاجدادمیں سے کسی کا نام لیتے ہوئے ۔۔۔زمانہ قدیم میں لوگ ان کی تعظیم کرتے، انہیں غیر معمولی انسان سمجھتے اوریہ کہتے تھے کہ یہ مقربین بارگاہ الٰہی ہیں بلکہ وہ انہیں رجال اللہ کے نام سے موسوم کرتے تھے، البتہ اب لوگوں کی رائے ان کے بارے میں مختلف ہے خاص طورپر نوجوان طبقہ اورطالب علم ان کے خلاف ہیں جبکہ معمر لوگ اورغیر تعلیم یافتہ لوگ ابھی تک ان کی عقیدت کا دم بھرتے ہیں ۔امید ہے آپ اس موضوع پر روشنی ڈال کر حقیقت حال کو واضح فرمائیں گے؟
جواب : یہ اوران جیسے دیگر لوگ درحقیقت ان صوفیوں میں سے ہیں جن کے اعمال منکر اورتصرفات باطل ہیں۔ان کا شماران نجومیوں میں بھی ہے جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ’’جو شخص کسی نجومی کے پاس جاکرکچھ پوچھے تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی ۔‘‘ کیونکہ یہ لوگ علم غیب کا دعوی کرتے اور جنات سے خدمت لیتے ہیں، لہذااس حدیث شریف کے پیش نظر ان کے پاس جانااوران سے کچھ پوچھناجائز نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد
|