Maktaba Wahhabi

296 - 437
کو جاری رکھے کیونکہ اس صورت میں اشارہ اورتکبیر کی بابت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کوئی دلیل ثابت نہیں ہے جیسا کہ میں نے اپنی کتاب التحقيق والايضاح لكثيرمن مسائل الحج والعمرة والزيارة میں بیان کیا ہے ۔ تکبیرصرف ایک بارہی ہوگی، باربارتکبیر کہنے کی کوئی دلیل نہیں ہے، سارے طواف میں دعائیں اورشرعی اذکار پڑھتے رہنا چاہئے اورطواف کے ہر چکر کو اس دعا پر ختم کرنا چاہئے، جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ختم فرمایا کرتے تھے اوروہ حسب ذیل مشہور دعا ہے: ﴿رَ‌بَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَ‌ةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‌﴾ (البقرۃ۲ /۲۰۱) ’’اے ہمارے پروردگارہم کو دنیا میں بھی نعمت عطافرمااورآخرت میں بھی نعمت بخشنا اوردوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھنا ۔‘‘ یادرہے طواف اورسعی کے تمام اذکار اوردعائیں سنت ہیں، واجب نہیں ہیں۔ واللّٰہ ولی التوفیق نفل حج افضل ہے یا افغان مجاہدین پر خرچ کرنا سوال : جوشخص فرض حج اداکرچکا ہو اوروہ دوسری باربھی کرسکتا ہوتواس کے لیے کیا یہ جائز ہے کہ دوسری بارحج کرنے کے بجائے حج پر خرچ ہونے والی رقم افغانستان کے مسلمان مجاہدین کو دے دے کیونکہ دوسری بارحج کرنا نفل ہے جب کہ جہاد کے لیے خرچ کرنا فرض ہے، براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔جزاكم اللّٰه عن المسلمين خير الجزاء ۔ جواب : جوشخص فرض حج اداکرچکا ہو اس کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ حج پر خرچ ہونے والی رقم اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہدین کو دےدے۔مثلا افغان مجاہدین یا افغانستان کے وہ مہاجرین جو پاکستان میں پناہ گزیں ہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تھا کہ کون سا عمل افضل ہے ؟توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ اوراس کے رسول پر ایمان لانا ۔‘‘سائل نے پوچھا کے اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے ؟توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘سائل نے پوچھا کہ پھراس کے بعد؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’حج مبرور ‘‘(متفق علیہ)تواس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کو جہاد کے بعد ذکر فرمایااورجہاد یہاں حج سےمراد نفلی حج ہے کیونکہ فرض حج تواسلام کا رکن ہے جب کہ اس کی استطاعت ہو اور صحیحین میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ’’جس نے کسی غازی کو تیا رکیا اس نے بھی جہاد کیا اورجس نے خیرو بھلائی کے ساتھ اس کے اہل خانہ کا خیال رکھا تواس نے بھی جہاد کیا ۔‘‘بلاشک وشبہ افغان مجاہدین اوران جیسے دیگر مجاہدین فی سبیل اللہ اپنے بھائیوں کی طرف سے مادی امدادکے شدید محتاج ہیں اورمذکورہ بالا دونوں احادیث کے پیش نظر مجاہدین پر خرچ کرنا نفل حج پر خرچ کرنے سے افضل ہے۔وباللّٰہ التوفیق! مکہ میں اقامت کے دوران حاجی کے لیے نماز کا قصر کرنا سوال : حاجی اگر مکہ میں چاردن سے زیادہ اقامت اختیارکرے تواس کے لیے نماز قصر کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب : اگر حاجی کی مکہ مکرمہ میں اقامت چاردن یا اس سے کم مدت کے لیے ہو تو اس کےلیے سنت یہ ہے کہ چاررکعتوں والی نماز کی دورکعت پڑھے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حجۃ الوداع کے موقعہ پر یہی عمل تھا اوراگر چاردن سے زیادہ مقیم رہنے کا ارادہ ہوتوپھر احتیاط یہ ہے کہ نماز پوری پڑھے، چنانچہ اکثر اہل علم کا یہی قول ہے۔ میں نے حج مفرد کا احرام باندھا تھا اورمیرا گروپ مدینہ منورہ ۔۔۔۔ سوال : میں ایک گروپ کے ساتھ حج کے لیے آیا ہوں، میں نے حج مفرد کا احرام باندھا تھا اور اب میرا گروپ مدینہ منورہ جانا چاہتا ہے توکیا مجھے یہ اجازت ہے کہ گروپ کے ساتھ مدینہ منورہ چلاجاؤں اورچند دنوں کے بعد عمرہ اداکرنے کے لیےمکہ مکرمہ واپس لوٹ آؤں؟ جواب : جب کوئی شخص ایک جماعت کے ساتھ مل کر حج کرےاوراس نے حج مفردکا احرام باندھ رکھا ہواورپھر وہ ان کے ساتھ زیارت کے لیے سفرکرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ اپنے احرام کو عمرہ کے لیے کردے، طواف کرے، سعی کرے، بالوں کومنڈوائے اورحلال ہوجائے اورپھر جب وقت آئے تو حج کے لیے احرام باندھے، اس طرح ا س کا حج تمتع ہوجائے گااوراسے حج تمتع کی ہدی دینا ہوگی جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا تھا، جن کے پاس ہدی نہیں تھی۔ مسجدنبوی کی زیارت اورحج سوال : بعض حاجی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگروہ مسجد نبوی کی زیارت نہ کرسکیں تواس سے ان کا حج ناقص ہوگا، کیا یہ بات صحیح ہے ؟ جواب : مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سنت ہے، واجب نہیں ہے اورحج کے ساتھ اس کا کوئی تعلق بھی نہیں ہے، مسجد نبوی کی زیارت توساراسال سنت ہے، اس کے لیے وقت کی بھی کوئی تخصیص نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ’’صرف تین مسجدوں کی طر ف بالاہتمام(ثواب کی نیت سے)سفر کیا جائے۔(۱)مسجد حرام(۲)میری اس مسجداور(۳)مسجداقصی کی طرف ۔‘‘(متفق علیہ) نیزآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہےکہ’’میری اس مسجد میں نماز، مسجد حرام کے سوادیگر مسجدوں کی ایک ہزار نمازسے بہتر ہے ۔‘‘(متفق علیہ)جوشخص مسجد نبوی کی زیارت کرے، اس کے لیے مسنون یہ ہے کہ وہ ریاض الجنۃ میں دورکعت نمازپڑھے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھیوں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اورحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پرسلام بھیجے، بقیع کی زیارت بھی مسنون ہے تاکہ وہاں مدفون شہداء، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اوردیگر مسلمانوں پر سلام بھیجاجائے اوران کے لیے دعا کی جائےجس طرح کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بقیع میں مدفون لوگوں کی قبروں کی زیارت فرمایا کرتے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کویہ تعلیم دیا کرتے تھے کہ وہ جب قبروں کی زیارت کریں تویہ دعا پڑھا کریں: ((السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، نَسْأَلُ اللَّهَ لَنَا وَلَكُمْ الْعَافِيَةَ)) ’’اے (اس)بستی کے رہنے والے مومنواورمسلمانو! تم پر سلام ہو اوربےشک ہم بھی ان شاء اللہ تم سے عنقریب ملنے والے ہیں، ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے اورتمہارے لیے عافیت کی دعاکرتے ہیں ۔‘‘ ایک اورروایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بقیع کی زیارت فرماتے تویہ دعاپڑھتے تھے: ((يَرْحَمُ اللهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ’اللهم اغفر لاهل بقيع الغرقد)) ’’اللہ تعالیٰ ہم میں سے آگے آنے والوں اورپیچھے رہ جانے والوں پر رحم فرمائے۔اے اللہ !اہل بقیع الغرقد کومعاف فرمادے ۔‘‘
Flag Counter