’’نبی( صلی اللہ علیہ وسلم )اورمومنوں کو یہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ مشرکوں کے لیے اس بات کے واضح ہوجانے کے بعد کہ وہ دوزخی ہیں، بخشش کی دعا کریں اگرچہ وہ (مشرک، مومنوں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم )کےقرابت دارہی کیوں نہ ہوں ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ اگروہ کسی کو ہدایت نہ دینا چاہے تو نبی بھی اسے ہدایت دینے کا اختیار نہیں رکھتا۔
﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللّٰه يَهْدِي مَن يَشَاءُ﴾ (القصص۲۸ /۵۶)
’’ اے محمد!( صلی اللہ علیہ وسلم )آپ جسے چاہیں، ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ ہی جس کو چاہتا ہےہدایت دیتا ہے ۔‘‘
اسی طرح ابولہب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا تھا، اس کا بھی کفر پر خاتمہ ہوا اس کی مذمت میں اللہ تعالیٰ نے ایک مستقل سورت نازل فرمادی جسے قیامت تک پڑھا جائے گا، یعنی:
﴿تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ﴾ (المسد۱۱۱ /۱)
’’ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹیں اوروہ ہلاک ہوگیا ۔‘‘
حقیقی معیار یہ ہے کہ قولی، عملی اوراعتقادی طور پر قرآن کریم اور سنت مطہرہ کی پیروی کی جائے، باقی رہے حسب ونسب تویہ کسی کے کچھ کام نہ آئیں گے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:’’جس شخص کو اس کے عمل نے پیچھے رکھا، حسب ونسب اسے آگے نہ لے جاسکے گا ۔‘‘نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے گروہ قریش!اللہ تعالیٰ سے اپنی جانوں کو خرید لو، میں اللہ کے دربار میں تمہارے کچھ کام نہ آؤں گا ۔‘‘اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا عباس، پھوپھی صفیہ اورلخت جگرفاطمہ رضی اللہ عنہم سےبھی یہی فرمایا۔اگرحسب ونسب کی بلندی کسی کے کام آسکتی توان لوگوں کے ضرورکام آتی۔
آسیب زدہ کے جسم میں جن کے داخل ہونے کا مسئلہ اورجن کے انسان سے مخاطب ہونے کا جواز
الحمدلله وحده، والصلوة والسلام علي من لانبي بعده، وعلي آله وصحبه ومن اهتدي بهداه ۔ ۔امابعد:
شعبان۱۴۰۷ہجری کے بعض مقامی وغیر مقامی اخبارات وجرائد نے مختصر ومطول پر وہ خبریں شائع کیں، جو میرے پاس اس جن کے مشرف بہ اسلام ہونے کے بارے میں تھیں، جس کا یہاں ریاض میں ایک مسلمان خاتون پر سایہ تھا، اس آسیب زدہ خاتون پر جب برادرعبداللہ بن مشرف عمری مقیم ریاض نے قرآن مجید کی آیات پڑھیں اورجن سے مخاطب ہوکر اسے اللہ تعالیٰ کا خوف یاد دلایا، وعظ ونصیحت کی اوراسے بتایاکہ ظلم کرنا حرام اورکبیرہ گناہ ہے اورپھر جب جن نے عبداللہ کو بتایا کہ وہ کافر ہےاوربدھ مت سے اس کا تعلق ہے توعبداللہ نے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو اس نے عبداللہ کے پاس اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا، پھرعبداللہ اورعورت کے وارثوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس عورت کو لے کر میرے پاس آئیں تاکہ میں بھی جن کے مشرف بہ اسلام ہونے کے اعلان کو سن سکوں، چنانچہ جب یہ لوگ میرے پاس آئے تومیں نے اس جن سے پوچھا کہ تمہارے اس عورت کے جسم میں داخل ہونے کے اسباب کیا ہیں؟
|