Maktaba Wahhabi

342 - 437
(طلاق) تحریم وطلاق کی قسم سوال : تحریم اور طلاق کی قسم کھالینے کا کیا حکم ہے؟اور اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جس کی یہ عادت بن چکی ہو؟ جواب : کسی حلال چیز کو حرام قراردینے کے لیے قسم کھانا جائز نہیں ہے خواہ یہ کہے کہ ’’ بالحرام لافعلن كذا‘‘ یایہ کہےکہ ’’علی الحرام لافعلن كذا‘‘ یایہ کہےکہ ’’لاافعل كذا‘‘کیونکہ ارشادباری تعالیٰ ہے: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّ‌مُ مَا أَحَلَّ اللّٰه لَكَ﴾ (التحریم۶۶ /۱) ’’اے نبی!جوچیز اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے تم اسے کیوں حرام کرتے ہو؟‘‘ اوراپنی بیویوں سے ظہارکرنے والوں کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنكَرً‌ا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُورً‌ا﴾ (المجادلۃ۵۸ /۲) ’’بے شک وہ نامعقول اورجھوٹی بات کہتے ہیں ۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر اللہ کی قسم کھانے سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جس شخص نے غیر اللہ کی قسم کھائی تحقیق اس نے شرک کیا، بلاشک وشبہ انسان کا یہ کہنا کہ ’’بالحرام لافعلن كذا‘‘بھی غیر اللہ کی قسم کھانے ہی کی ایک صورت ہے ! اسی طرح یہ قسم کھانا کہعلی الطلاق لافعلن كذا یا یہ کہنا کہ ’’ان فعلت کذا فانت طالق‘‘(اگرتونے ایسا کیا توتجھےطلاق)مکروہ ہے کیونکہ یہ طلاق تک پہنچادینے کا سبب بن سکتا ہے اورکسی شرعی سبب کے بغیر طلاق دینا حلال چیزوں میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ نا پسندیدہ ہے اوراگرکوئی یوں کہے ’’بالطلاق لافعلن کذا‘‘ یایہ کہے کہ ’’لاافعل كذا ‘‘ تویہ ایک امر منکر ہے کیونکہ غیراللہ کی قسم جائز نہیں ہے۔واللّٰہ ولی التوفیق۔ طلاق کی شرط پر اگلے سال میں یہ سوداخریدلوں گا۔۔۔۔ سوال : ایک شخص نے بھول کریہ قسم کھائی ۔۔۔بھولنے کی وجہ یہ ہے کہ ابھی اس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی ۔۔۔مجھ پر طلاق اگر میں اگلے سال یہ سودا نہ خریدوں۔۔۔۔۔اس صورت میں اگر وہ اگلے سال سودانہ خرید ے توکیا واقعی اس کی بیوی کو طلاق ہوجائے گی ؟نہ خریدنے کی صورت میں اس پر کیا کفارہ ہوگا؟یاد رہے اس طرح طلاق وغیرہ کے ساتھ قسم کھانا اس کی ہرگز عادت نہیں ہے اوراب اس نے اللہ تعالیٰ سے استغفاربھی کرلیا ہے؟ جواب : اس قسم کے کلام کے بارے میں خاوند کی نیت کے لحاظ سے حکم مختلف ہوتا ہے، اگر اس سے اس کا مقصود اس سودے کے خریدنے پر اپنے آپ کو رغبت دینا اورانگیخت کرنا ہے اورسودا نہ خریدنے کی صورت میں اپنی بیوی سے علیحدگی
Flag Counter