جواب : جب محرم ۔۔۔خواہ مردہویا عورت۔۔۔کے سر سے وضوکے وقت مسح کرتے ہوئے یا سرکو دھوتے ہوئے بال گرجائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں اس طرح اگرمرد کی داڑھی یامونچھ سےبال گرجائیں یا از خود کوئی ناخن ٹوٹ جائے تواس میں بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ اس نے عمدا ایسا نہیں کیا اورممنوع یہ بات ہے کہ کوئی محرم ازخود بال ناخن کاٹے، اسی طرح عورت کے لیے بھی یہ لازم ہے کہ وہ ازخود کچھ نہ کاٹے اوراگرغیر اختیار ی طورپر بال گرجائیں تووہ مردہ بال ہوتے ہیں جو حرکت کرنے سے گرجاتے ہیں، لہذا ان کا گرجانا محرم کے لیے نقصان دہ نہیں ہے۔
طواف وداع مسافرکے لیے ہے جو اپنے اہل وعیال کے پاس جارہا ہو
سوال : جب حاجی عمرہ اداکرےاورپھروہ حرم سے باہراپنے قریبی رشتہ داروں سے ملنے جائے توکیا اس کے لیے طواف وداع لازم ہے؟کیا طواف وداع نہ کرنے کی وجہ سے کوئی فدیہ وغیرہ لازم ہے؟
جواب : عمرہ کرنے والے کے لیے طواف وداع کا حکم نہیں ہے، جب وہ عمرہ کرنے کے بعد حرم سے باہر مکہ کے مضا فات میں جانا چاہے، اسی طرح حاجی کے لیے بھی اس صورت میں طواف وداع کا حکم نہیں ہے ہاں البتہ جب وہ سفر کرنا چاہیں خواہ یہ سفر اپنے اہل وعیال کی طرف ہو یا غیر اہل وعیال کی طرف توان کے لیےطواف وداع مشروع ہے لیکن یہ طواف واجب نہیں ہےکیونکہ اس کے وجوب کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عمرہ سے حلال ہونے کے بعد منی وعرفات کی طرف گئے توانہیں طواف وداع کا حکم نہیں دیا گیا تھا، ہاں البتہ حاجی کے لیے یہ لازم ہےکہ جب وہ حج کی تکمیل کے بعد مکہ سے رخصت ہو توطواف وداع کرے خواہ مکہ سے وہ اپنے اہل خانہ کی طرف سفر کرے یا کسی اورطرف، کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول ہے کہ ’’ لوگوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ رخصت ہونے سے قبل وہ اپنا آخری وقت بیت اللہ میں گزاریں، البتہ حائضہ عورت اس سے مستثنی ہے ۔‘‘(متفق علیہ) ’’لوگوں کو یہ حکم دیا گیا ہے‘‘ کے الفاظ سے مراد یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو یہ حکم دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں الفاظ یہ ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’تم میں سے کوئی اس وقت تک کوچ نہ کرے جب تک اپنا آخری وقت بیت اللہ میں نہ گزارے ۔‘‘(مسلم)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج ہویا عمرہ حائضہ عورت کے لیے طواف وداع نہیں ہے، نیز نفاس والی عورت کے لیے بھی نہیں کیونکہ اہل علم کے نزدیک دونوں کے لیے حکم ایک جیسا ہے۔
رکن یمانی کو چھونا
سوال : طواف کرتے ہوئے کعبہ مشرفہ کے جنوب مغربی رکن کو ہاتھ سے چھونے یا اشارہ کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟رکن یمانی اورحجر اسود کے پاس کتنی تکبیریں پڑھی جائیں؟
جواب : طواف کرنے والےکے لیے حکم شریعت یہ ہے کہ وہ طواف کے ہر چکر میں حجر اسود اوررکن یمانی کو چھوئے کیونکہ حجر اسود کو ہر چکر میں چھونا اوربوسہ دینا مستحب ہے حتی کہ آخری چکر میں بھی بشرطیکہ مشقت کے بغیر آسانی سے ممکن ہو اوراگر مشقت ہو تو اس مقصد کے لیے بھیڑکرنا مکروہ ہے اوراس صورت میں حکم یہ ہے کہ ہاتھ یا عصا کے ساتھ اشارہ کیاجائےاوراللہ اکبر پڑھا جائے۔رکن یمانی کی طرف اشارہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں، اسے دائیں ہاتھ سے صرف چھونے کا حکم ہے بشرطیکہ آسانی سے ممکن ہواسے بوسہ دینے کا بھی حکم نہیں ہے ۔حجراسود اوررکن یمانی کو چھوتے وقت یہ کہاجائے ’’بسم اللّٰه واللّٰه اكبر، يا، اللّٰه اكبر‘‘اگر ہاتھ سے چھونے میں مشقت ہوتوپھر اشارہ وتکبیر کے بغیر اپنے طواف
|