ہے کیونکہ ان حضرات کے سکوت کی وجہ سے یہ فتنہ عظیم سے عظیم ترہوجائے گالیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اس فتنہ کا سدباب صرف انہی پر فرض ہے بلکہ یہ توتمام مسلمانوں پر فرض ہے خصوصا عورتوں کے اس فتنہ کو کچل دینا چاہئے اورذرہ بھر تساہل نہیں کرنا چاہئے کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس بلا کو ختم کرکے ہمیں اورہماری عورتوں کو سیدھے راستے کی ہدایت دے دے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا:
((مَا مِنْ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللَّهُ فِي أُمَّةٍ قَبْلِي إِلَّا كَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيُّونَ وَأَصْحَابٌ يَأْخُذُونَ بِسُنَّتِهِ وَيَقْتَدُونَ بِهَا ثُمَّ يَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوفٌ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ وَيَفْعَلُونَ مَا لَا يُؤْمَرُونَ فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ الْإِيمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ))
’’اللہ تعالیٰ نے جس قد ربھی نبی بھیجے ہیں ہر ایک کی امت میں سے اس کے حواری اورکچھ ایسے ساتھی ضرور رہے ہیں جو اس کی سنت کو پکڑتے اوراس کے حکم پر عمل کرتے تھے، پھر ان کے بعد ایسے لوگ آجاتے جو وہ کہتے، خود نہ کرتے اور وہ (ایسے کام)کرتے جن کا انہیں حکم نہیں دیا جاتا تھا، جوان سے ہاتھ سے جہاد کرے وہ مومن ہے اورجوان سے زبان سے جہاد کرے وہ بھی مومن ہے اورجو ان سے دل کے ساتھ جہاد کرے وہ بھی مومن ہے اوراس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں رہتا ۔‘‘
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے دین کی مدد فرمائے، اپنے کلمہ کو سربلند کرے، ہمارے حکام کی اصلاح فرمائے اورتوفیق دے کہ وہ حق کی حمایت کریں اورفتنہ وفساد کا قلع قمع کردیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں، تمہیں، ان سب کو اورسب مسلمانوں کو توفیق دے کہ ہم وہ کام کریں جس میں ہماری اورہمارے ممالک کی دنیوی اوراخروی فلاح وبہبود ہو، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادرہے اور دعاؤں کا سننے والا بھی وہی ہے۔
و حَسْبُنَا اللّٰه وَنِعْمَ الْوَكِيلُ’ولا حول ولا قوة الاباللّٰه العلي العظيم’ وصلي اللّٰه وسلم وبارك علي عبده ورسوله محمد وآله وصحبه ومن تبعهم باحسان الي يوم الدين
مخلوط تعلیم
الحمدلله، والصلوة والسلام علي رسول اللّٰه ۔۔ وبعد:
میں نے وہ بیان دیکھا ہے، جواخبار’’السیاستہ ‘‘ کے شمارہ نمبر۵۶۴۴ میں مؤرخہ ۲۴ /۷ /۱۴۰۴ ہجری کو شائع ہوا اورجسے صنعاءیونیورسٹی کے مدیر جناب عبدالعزیزمقالح کی طرف منسوب کیا گیا ہے اورجس میں انہوں نے کہا ہے کہ طالبات کو طلبہ سے الگ کردینے کا مطالبہ شریعت کے مخالف ہے ۔انہوں نے طلبہ وطالبات کے اختلاط کے جواز کے لیے یہ دلیل دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تمام مسلمان خواہ مرد ہوں یا عورتیں ایک ہی مسجد میں نماز اداکیا کرتے تھے، لہذاضروری ہے کہ تعلیم بھی ایک ہی جگہ ہو۔مجھے ایک اسلامی ملک کی اسلامی یونیورسٹی کے مدیر کا یہ بیان پڑھ کر بہت تعجب
|