جواب : ہم آپ کویہ وصیت کریں گے کہ ان لوگوں کو مسلسل سمجھاتے رہئے اورجماعت کے خاص خاص احباب کو ساتھ لے کر ان لوگوں سے ملیے اورانہیں سمجھائیے اوربتائیے کہ نماز باجماعت ادانہ کرنے کے کس قدر خطرناک نتائج ہیں اوراورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ منافقوں کی نشانی ہے۔ہوسکتا ہے کہ آپ لوگوں کے سمجھانے سے وہ سمجھ جائیں اورراہراست پر آجائیں ۔صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘‘منافقوں کے لیے سب سے بھاری نماز، نمازعشاءوفجر ہے اوراگرانہیں علم ہوتا کہ ان میں کس قدر اجروثواب ہے تو وہ گھٹنوں کے بل چل کران میں شریک ہوتے ۔‘‘نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ‘‘جس نے اذان سنی اورپھر نماز اداکرنے مسجد میں نہ آیا تواس کی نماز ہی نہیں ہوتی الایہ کہ کوئی (شرعی)عذرہو ۔‘‘ایک نابینا شخص جسے مسجد میں لانے کے لیے کوئی معاون نہ تھا، رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے گھر میں نماز اداکرنے کی اجازت مانگی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: «هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ؟» فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: «فَأَجِبْ» ’’ کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو؟‘‘ اس نے عرض کیا :جی ہاں، فرمایا:’’پھر اس پر لبیک کہو ۔‘‘
ایک اورروایت میں الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایاکہ:
((لَا أَجِدُ لَكَ رُخْصَةً)) ’’ میں تمہارے لیے کوئی رخصت نہیں پاتا ۔‘‘
جلیل القدر صحابی رسول حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ہم نے دیکھا کہ نماز باجماعت اداکرنے سے صرف وہی شخص پیچھے رہتا جوکھلم کھلا منافق ہوتا تھا ۔‘‘
ہرمسلمان پر یہ واجب ہے کہ وہ نماز باجماعت کی حفاظت کرے اورپیچھے رہنے سے اجتناب کرے۔آئمہ مساجد پر بھی یہ واجب ہے کہ وہ پیچھے رہنے والوں کو سمجھائیں، انہیں وعظ ونصیحت کریں اوراللہ تعالیٰ کے غضب وعقاب سے ڈرائیں۔اگرنصیحت کارگرثابت نہ ہو تو پھر اس محلہ کے مرکز امربالمعروف کو شکایت کی جائے جس میں مسجد واقع ہو، تاکہ وہ حسب ہدایات اس سلسلسہ میں ضروری کارروائی کرسکے۔ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ تمام مسلمانوں کو ایسے کاموں کی توفیق عطافرمائے جن کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے غضب وعقاب سے بچ سکیں۔
ہم سودا سلف خریدنے کے لیے اپنی بستی سے پچاس کلومیٹر ۔۔۔۔
سوال : میں اپنے بعض اہل خانہ کے ساتھ اشیاء ضروریہ خریدنے کے لیے اپنی بستی قریبا پچاس کلومیٹر دورایک شہرمیں جاتا ہوں، مغرب کے وقت واپسی ہوتی ہے، اژدہام اوروقت مغرب کی تنگی کے باعث ہم تاخیر سےنکلتے ہیں اورگھر اس وقت پہنچتے ہیں جب مغرب کاوقت ختم ہو کر عشاء کی اذان ہورہی ہو تی ہے۔کیا اس صورت میں سفر کی دوری اورہمراہ عورتوں کی مشقت کے باعث یہ جائز ہے کہ نماز مغرب کو مؤخر کرکے اپنی بستی میں اداکرلیا جائے؟
جواب : سوال میں مذکورہ صورت حال کے پیش نظر اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ دفع مشقت کے لیے تم نماز مغرب کو مؤخر کرکے اپنی بستی میں اداکرلواوراگرراستہ میں بروقت نماز اداکرسکوتویہ زیادہ افضل ہے۔
میراپڑوسی رات کو بہت (دیرتک)بیداراورنماز فجر کے وقت سویا رہتا ہے
سوال : میراایک دوست میرے بہت ہی قریب رہتا ہے، مسجد بھی ہمارے گھر سے بہت ہی قریب ہے لیکن میرا دوست نماز
|