اللہ تعالیٰ کے اسماءوصفات کے معانی کے مطابق اخلاق اختیار کرنا
عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کی طرف سے برادر مکرم۔۔۔۔کے نام، ((سلمه اللّٰه وتولاه))
سلام عليكم ورحمة اللّٰه وبركاته ۔ وبعد:
آپ کا مؤرخہ۲۳مارچ۱۹۸۶ءکا لکھا ہوا مکتوب گرامی موصول ہوا جس میں آپ نے یہ سوال بھی پوچھا ہے کہ ایک خطیب صاحب نے خطبۂ جمعہ میں اس بات کی ترغیب دی کہ اللہ تعالیٰ کی صفت کو اپنایا جائے اور اس کے اخلاق کو اختیار کیا جائے۔کیا اس کلام کا کوئی وزن اور مقصد ہے اور ان سے پہلے بھی کسی نے یہ بات کی ہے یا نہیں؟۔۔۔۔۔الخ
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تعبیر نامناسب ہے لیکن اس کا محمل صحیح ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی صفات کے تقاضے اور اس کے اسماءحسنیٰ کے مطابق اخلاق اختیار کرنے کی ترغیب وتلقین، لیکن یہاں صفات سے مراد اللہ تعالیٰ کی وہ صفات ہیں جن کے تقاضا کے مطابق متصف ہونا مخلوق کے لیے مستحسن ہے۔یہاں وہ صفات مراد نہیں ہیں جو محض اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی کے ساتھ مخصوص ہیں، مثلا اس کا خلاق، رزاق اور الٰہ ہونا کہ اس طرح کی صفات کے ساتھ موصوف ہونا مخلوق کے لیے ممکن ہی نہیں ہے اور نہ کسی کے لیے یہ دعویٰ کرنا جائز ہے کہ وہ ان صفات سے موصوف ہے، اسی طرح ان صفات سے مشابہ اسماءحسنیٰ کا بھی یہی حکم ہے، لہٰذا یہاں وہ صفات مراد ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ یہ پسند فرماتا ہے کہ اس کے بندے ان کے تقاضوں کے مطابق اتصاف پذیر ہوں، مثلا علم، قوت حق، رحمت، حلم، جودوکرم اور عفو وغیرہ، چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ علیم ہے تو وہ علماء سے محبت کرتا ہے۔وہ قوی ہے تو کمزور مومن کی نسبت قوی مومن سے محبت فرماتا ہے۔وہ کریم ہے، کرم کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔وہ رحیم ہے، رحم کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔وہ معاف کردینے والا ہے، معاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔۔۔۔۔۔الخ۔لیکن اللہ تعالیٰ کی یہ صفات اور اس کی دیگر صفات مخلوق کی نسبت اکمل واعظم ہیں بلکہ خالق اور مخلوق کی صفات کا کوئی مقابلہ ہی نہیں کیونکہ صفات وافعال میں کوئی چیز اس جیسی نہیں ہے جیسا کہ ذات کے اعتبار سے بھی کوئی چیز اس جیسی نہیں ہے۔مخلوق کے لیے بس اتنی بات ہی کافی ہے کہ اسے ان صفات کے معانی میں سے کچھ حصہ مل جائے جو اس کے مناسب حال ہو اور پھر وہ اسے دائرۂ شریعت کے اندر استعمال کرے، مثلا اگر کوئی جودوکرم میں شرعی حد سے تجاوز کرے گا تو یہ اسراف ہوگا، اگر کوئی رحمت کے اظہار میں دائرۂ شریعت سے تجاوز کرے گا تو اس سے شرعی حدودوتعزیرات معطل ہوجائیں گی، اسی طرح اگر کوئی شخص شرعی حد سے بڑھ کر معافی دے تو یہ بھی معافی کا غلط استعمال ہوگا۔یہ چند مثالیں ہیں، اس سلسلہ میں باقی صفات کا بھی یہی حکم ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتابوں’’عدۃ الصابرین‘‘اور’’الوابل الصیب‘‘ اور شائد’’مدارج’’ اور ’’زاد المعاد‘‘ کے علاوہ دیگر کتابوں میں بھی اس مسئلہ کو بیان فرمایا ہے، چنانچہ’’عدۃ‘‘ اور’’وابل ‘‘ کے حوالے پیش خدمت ہیں۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ ’’ عدۃ الصابرین ‘‘ کےص۳۱۰پر رقم طراز ہیں کہ جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ حقیقی معنوں میں شکور ہے تو اپنی مخلوق میں سے اسے وہ شخص زیادہ پسند ہوگا جو صفت شکر
|