لويعلم الماربين يدي المصلي ماذا عليهکیایہ حدیث صحیح ہے؟
سوال : مجلۃ’’الدعوۃ‘‘ شمارہ نمبر۸۲۸ مؤرخہ ۱۶ ربیع الاول بمطابق۱۱جنوری۱۹۸۲ءمیں’’فتاوی اسلامیہ‘‘کے ضمن میں دوسرے سوال کا جواب دیتے ہوئے سنت سےاس کی دلیل یہ حدیث پیش کی گئی ہے کہ:
((قَالَ أَبُو جُهَيْمٍ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ)) (رواه البخاري ومسلم)
سوال یہ ہے کہ کیا اس حدیث کے یہ الفاظ صحیح لکھے گئے ہیں، ان میں کتابت کی کوئی غلطی تونہیں ہے۔
أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ کےالفاظ میں اشتباہ معلوم ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔((وفقكم الله))۔
جواب : یہ حدیث صحیح ہے۔امام بخاری ومسلم نے اسے صحیحین میں روایت فرمایا ہے اوراس کے الفاظ اسی طرح ہیں جس طرح سوال میں ذکر کیے گئے ہیں۔بعض کتابوں میں جو مَاذَا عَلَيْهِ ؟کےبعدمن الاثمکااضافہ ہے تویہ اضافہ روایت کے اعتبار سے توصحیح نہیں، ہاں البتہ معنی کے اعتبارسےیہ صحیح ہے۔
ایسے پارکوں میں نماز کا حکم جنہیں بدبودارپانی سے سیراب کیا جاتا ہو
سوال : پبلک پارکوں میں نماز پڑھنے کے بارے میں کیا حکم ہے کیونکہ انہیں ایسے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے جس سے بدبواٹھ رہی ہوتی ہے ؟مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ پانی یا تو گٹروں کا صاف شدہ پانی ہوتا ہے یا ایسے کنوؤں کا جن میں ناپاک سیورج کا پانی مل جاتا ہے ۔کیا محکمہ کی طرف سے لوگوں کو ان پارکوں میں نماز اداکرنے سے منع کیا جاسکتا ہے؟امید ہے آپ اس مسئلہ کی وضاحت فرما کر شکریہ کا موقع بخشیں گے۔
جواب : جب تک ان پارکوں سے بدبوآتی رہے ان میں نماز صحیح نہ ہوگی کیونکہ نماز کے صحیح ہونے کی شرطوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ جگہ بھی پاک ہو جہاں مسلمان نماز پڑھ رہا ہو، لہذا اگراس جگہ کوئی پاک صا ف کپڑا بچھا کراس پر نمازپڑھ لی جائے تونماز صحیح ہوگی لیکن کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ پارکوں میں نماز پڑھے، خواہ اس نے پاک صاف کپڑا ہی کیوں نہ بچھالیا ہوکیونکہ کہ اس کے لیے واجب یہ ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کراللہ تعالیٰ کے ان گھروں یعنی مسجدوں میں نماز اداکرے جن کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایاہے:
﴿فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللّٰه أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ﴿٣٦﴾ رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللّٰه وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ ﴿٣٧﴾ لِيَجْزِيَهُمُ اللّٰه أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِ ۗ وَاللّٰه يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ (النور۲۴ /۳۶۔۳۸)
’’ان گھروں میں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ بلند کیے جائیں اوران میں اللہ کا نام ذکر کیا جائے، وہاں صبح شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح (پاکی)بیان کرتے ہیں، ایسے لوگ جنہیں تجارت اورخریدو فروخت اللہ کے ذکر سے اورنمازقائم کرنے اورزکوۃ اداکرنے سے غافل نہیں کرتی وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اورآنکھیں الٹ جائیں گی۔تاکہ اللہ ان کو ان کے عملوں کا بہت اچھا (اوربہترین )بدلہ دے اوراپنے فضل سے زیادہ بھی عطاکرےاوراللہ جس کو چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے ۔‘‘
اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہےکہ ’’جوشخص اذان کی آواز سنے اورپھر مسجد میں نمازکے لیے نہ آئے تواس کی نماز
|