’’اس ذات کی قسم!جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، میں اس سے زیادہ اچھے طریقے سے نماز ادانہیں کرسکتا، مجھے نماز پڑھنے کا طریقہ سکھا دیجئے ۔‘‘ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:’’جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کروتو خوب اچھے طریقے سے وضو کرو، پھر قبلہ رخ کھڑے ہوکر اللہ اکبر کہو، پھر جوآسانی سے ممکن ہو قرآن مجید پڑھو، پھر خوب اطمینان سےرکوع کرو۔پھر رکوع سے سر اٹھاؤ اوربالکل سیدھے کھڑے ہوجاؤ، پھر خوب اطمینان سے سجدہ کرو، پھر سجدہ سے سراٹھاؤاوراطمینان سے بیٹھ جاؤ، پھر بے حد اطمینان سےسجدہ کرو، پھرساری نماز ہی اسی طرح اطمینان(وسکون)سےاداکرو ۔‘‘ (متفق علیہ) ابو داؤد کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ’’پھر سورۃ فاتحہ اور جو اللہ چاہے اس کی قراءت کرو۔‘‘ یہ صحیح حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ طمانینت نماز کا اتنا بڑا رکن اورفرض عظیم ہے کہ اس کے بغیر نماز صحیح نہیں ہوتی، جوشخص ٹھونگیں مارے اس کی نماز نہیں ہوتی۔خشوع وخضوع نماز کا خلاصہ اورروح ہے، لہذا مومن کو چاہئے کہ وہ نماز کا خصوصی اہتمام کرے، خوب ذوق و شوق سے نماز اداکرے۔یہ کہنا کہ اگر تین حرکتیں ہوگئیں تو وہ طمانینت اورخشوع کے منافی ہیں تواس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث سے کوئی ثبوت نہیں ہے بلکہ یہ بعض اہل علم کا قول ہےاوراس کے لیے کوئی قابل اعتماد دلیل نہیں ہے۔
ہاں!البتہ نماز میں حرکات فاضلہ مثلا ناک، داڑھی اورکپڑوں وغیرہ کے ساتھ کھیلنا اورمشغول ہوجانا مکروہ ضرورہے، اوراگراس طرح کے فضول کام نماز میں کثرت اورتواترسےہوں تواس سے نماز باطل ہوجائے گی اوراگر حرکت ایسی ہوکہ اسے عرف میں زیادہ نہیں بلکہ کم ہی سمجھا جاتا ہو، یا زیادہ توہو مگرمتواترنہ ہو تواس سے نماز باطل نہ ہوگی لیکن مومن کو چاہئے کہ نماز میں خشوع وخضوع کی حفاظت کرے اورفضول حرکتوں کو چھوڑ دے خواہ وہ کم ہوں یا زیادہ، تاکہ نماز کو تمام وکمال انداز میں اداکرسکے ۔
اس بات کی دلیل کہ عمل قلیل، حرکات قلیلہ اور متفرق وغیر متواتر عمل وحرکت سے نماز باطل نہیں ہوتی، یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے آنے پر دروازہ کھول دیا تھا اوراسی طرح حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنی نواسی امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہاکو گود میں اٹھا کرنماز پڑھائی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدےمیں جاتے تواسے اتار(بٹھا)دیتے اورجب کھڑے ہوتے تواسے اٹھا لیتے تھے ۔ (( واللّٰہ ولی التوفیق))
جب نماز پڑھتے ہوئے ناک سے خون نکل آئے تو۔۔۔؟
سوال : اگرنماز پڑھتے ہوئے انسان کی ناک سے خون نکل آئے تواس کےبارے میں کیا حکم ہے؟
جواب : اگرخون کی مقدارقلیل ہو توقابل معافی ہے، اسےرومال وغیرہ سے صاف کرلےاوراگراس کی مقدارکثیر ہوتونماز کو توڑ دے، خون صاف کرلے اورپھردوبارہ وضو کرے تاکہ علماء کےاختلاف سے بچاجاسکے، پھر ازسرنوشروع کرے۔جس طرح کہ نماز کے دوران کسی ایسی صورت کے پیش آنے پر کیا جاتا ہے جس میں وضو کے ٹوٹ جانے پر تمام علماء کا اتفاق ہے، مثلا ہوا یا پیشاب کاخارج ہونا وغیرہ تواس صورت میں نماز توڑ دی جاتی، وضو کیا جاتا اورنماز کو از سرنو پڑھا جاتا ہے۔ واللہ ولی التوفیق۔
جب نمازی یہ محسوس کرے کہ کوئی چیز خارج ہوئی ہے تو۔۔۔۔؟
سوال : جب میں نماز کے لیے وضو کرتا ہوں تودوران وضو یوں محسوس ہوتا ہے کہ عضو تناسل سے کوئی چیز نکل رہی ہے
|