خاوند اپنی بیوی پر لعنت بھیجے یا اس سے پناہ چاہے تو اس سے وہ اس پر حرام نہیں ہوگی ہاں البتہ اسےاس بات سے توبہ کرنی اور بیوی پر لعنت کرنے کی وجہ سے اس سے معاف کروالینا چاہئے کیونکہ کسی مسلمان مرد یا عورت پر لعنت کرنا جائز نہیں خواہ وہ اس کی بیوی ہو یا کوئی اور۔لعنت کبیرہ گناہ ہے، اسی طرح عورت کے لیے اپنے خاوند یا کسی اورمسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ’’مومن پر لعنت کرنا اسے قتل کرنے کی طرح ہے ۔‘‘اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ’’لعنت کرنے والے قیامت کے دن گواہی دینے والے اورشفاعت کرنے والے نہ بن سکیں گے ۔‘‘نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ’’مسلمان کو گالی دینا فسق اوراسے قتل کرنا کفر ہے ۔‘‘ہم اللہ تعالیٰ سے ہر اس چیز سے عافیت وسلامتی کی دعا کرتے ہیں جو اسے ناراض کرنے والی ہو!
ایک مجلس کی تین طلاقیں
سوال : ایک ہی کلمہ کے ساتھ تین طلاقیں یا ایک ہی مجلس میں الگ الگ تین طلاقیں دینا حرام ہیں اورایسا کرنے والے کو گناہ گارسمجھا جاتا ہے لیکن جمہور علماء کا اس مسئلہ میں بہت اختلاف ہے، بعض کی رائے یہ ہے کہ اس سے تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں، بعض کی رائے یہ ہے کہ اس سے ایک طلاق واقع ہوتی ہےجب کہ ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ اس سے طلاق بالکل واقع ہوتی ہی نہیں، کیونکہ یہ طلاق بدعی ہے، اوراللہ تعالیٰ کے مقررکردہ طریقے کے خلاف ہے۔سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ صحیح حکم کیا ہے، عکرمہ کی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سےمروی حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکانہ کی ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک قراردیا تھا؟
جواب : اس مسئلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ جب آدمی اپنی عورت کو ایک یہ کلمہ کے ساتھ تین طلاقیں دے دے تواسے ایک طلاق شمار کیا جائے گاکیونکہ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد (زمانے )میں حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے عہد میں اورحضرت عمررضی اللہ عنہ کے عہدخلافت کے ابتدائی دوسالوں تک تین طلاقوں کو ایک ہی قراردیا جاتا تھا، حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگوں نے اس مسئلہ میں جلد بازی سے کام لینا شروع کردیا ہے، جس میں ان کے لیے مہلت تھی لہذا اس کو اگر ہم نافذ کردیں تو؟۔۔۔چنانچہ انہوں نے اسے نافذ کردیا ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگردوں اوردیگر اہل علم نے اسی بات کو اختیار کیا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہی روایت ثابت ہے۔ سیرت نگار امام محمد بن اسحاق کا بھی یہی قول ہے اوریہی قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اوران کے شاگرد علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار کیا ہے۔
شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کو بھی اختیار کیا ہے کہ دوسری اورتیسری طلاقیں نکاح یا رجعت کے بعد ہی واقع ہوں گی اورپھر اس کے انہوں نے کئی اسباب ذکر کیے ہیں، لیکن میرے علم کے مطابق آپ کے اس دوسرے قول کی ادلہ شرعیہ میں سے کسی دلیل سے تائید نہیں ہوتی ۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بھی کسی کا قول اس کی تائید میں نہیں ہے، لہذاصحیح بات بس یہی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی، باقی رہی حدیث رکانہ تووہ اس مسئلہ میں صریح نہیں ہے، اس حدیث کی سند میں بھی کلام ہے کیونکہ اسے داود بن حصین نے عکرمہ سے روایت کیا ہے اوراس روایت کو محدثین کی ایک جماعت نے ضعیف قراردیا ہےجیسا کہ ’’تقریب‘‘، ’’تہذیب‘‘اوردیگر کتابوں میں داؤد مذکورکے ترجمہ سے معلوم ہوتا ہے ۔
|