Maktaba Wahhabi

174 - 437
’’(اے اللہ !تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اورآل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت نازل فرما، جس طرح تونے ابراہیم علیہ السلام اورآل ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی ہے، بے شک توہی تعریف کے لائق بڑائی اوربزرگی کا مالک ہے، (اے اللہ !تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اورآل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر برکتیں نازل فرما، جیسےتونے ابراہیم علیہ السلام اورآل ابراہیم پربرکتیں نازل فرمائی ہیں، بے شک توہی تعریف کے لائق، بڑائی اوربزرگی کا مالک ہے ۔‘‘ یہ درودشریف معروف اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔اس کی کئی قسمیں ہیں، ان میں سے جس قسم کے الفاظ کے مطابق درود پڑھ لیا جائے حکم شریعت پر عمل ہوجائے گا بشرطیکہ وہ ان اقسام میں سے ہوجو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ کثر ت سے اللہ کے نام کی جھوٹی سچی قسمیں کھانا سوال: میرا ایک قریبی رشتہ داراللہ تعالیٰ کے نام کی کثرت سے جھوٹی سچی قسمیں کھاتا ہے، تواس کا کیا حکم ہے ؟ جواب : اسے نصیحت کی جائے اورکہا جائے کہ تم کثرت سے قسمیں نہ کھایا کروخواہ سچی ہی کیوں نہ ہو کیونکہ ارشادباری تعالیٰ ہے: ﴿وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ﴾ (المائدہ۵ /۸۹) ’’اور(تمہیں)چاہئے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو ۔‘‘ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ’’ تین آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے نہ کلام فرمائے گا، نہ ان کی طرف روز قیامت دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گااوران کے لیے دردناک عذاب ہوگا (۱)بوڑھا زانی(۲)متکبر فقیراور(۳)وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مال تو دیا ہے لیکن وہ قسم کھا کر خریدتا اورقسم کھاکر ہی بیچتا ہے ۔‘‘اہل عرب کم قسمیں کھانے والے کی تعریف کرتے تھے جیسا کہ شاعر نے کہا : قليل الألايا حافظ اليمينه إذا صدرت منه الألية برت ’’وه قسمیں کم کھانے والا اوراپنی قسم کی حفاظت کرنے والا ہے اورجب اس سے قسم صادر ہوتی ہے تووہ پوری ہوکررہتی ہے ۔‘‘ ‘‘الية ‘‘کے معنی قسم کے ہیں ۔مومن کو چاہئے کہ وہ قسمیں کم کھائےخواہ سچا ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کثرت سے قسمیں کھانے کی وجہ سے وہ جھوٹی قسمیں کھانے لگے۔ یہ معلوم ہے کہ جھوٹ بولنا حرام ہے اوراگرجھوٹ کے ساتھ قسم بھی شامل ہو تواس کی حرمت میں اوربھی اضافہ ہوجاتا ہے لیکن اگر ضرورت یا مصلحت راجحہ کی وجہ سے جھوٹی قسم کھانی پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ ام کلثوم رضی اللہ عنہابنت عقبہ بن ابی معیط سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے مابین صلح کرادیتا ہے، وہ بہتر بات کہتا ہے اوراچھی بات کی خبر دیتا ہے ۔‘‘ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے نہیں سنا کہ جسے لوگ جھوٹ کہتے ہیں، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین صورتوں کے سوا اورکسی صورت میں اس کی اجازت دی ہو اوروہ تین صورتیں یہ ہیں(۱)لوگوں میں صلح کرانا(۲)جنگ کے موقعہ پر اور(۳)شوہر کی اپنی بیوی سے اوربیوی کی اپنے شوہر سے گفتگو ۔(صحیح مسلم) مثلا لوگوں میں صلح کی خاطر ایک آدمی اگریوں کہے کہ اللہ کی قسم !تمہارے ساتھی صلح کو پسند کرتے اوروہ چاہتے ہیں کہ اتفاق ہو اوراسی طرح دوسروں کے پاس جاکر بھی اسی قسم کی بات کرے اورمقصد نیک اور لوگوں میں صلح کرانا ہو تو اس
Flag Counter