Maktaba Wahhabi

170 - 437
جواب: الحمدللہ یہ طریقہ بہت آسان ہے، مومن کو چاہئے کہ وہ اپنا خود محاسبہ کرے، اپنے آپ کو حق کا پابند بنائے، شریعت کے مطابق زندگی بسر کرنے والوں کو اپنا آئیڈیل بنائے، اللہ تعالیٰ کی توحید پر ثابت قدم رہے، اس کے لیے اخلاص کا مظاہرہ کرے، اس کے لیے عمل کو اپنے اوپر لازم قراردے، اس کی طرف دعوت دے حتی کہ توحید پر ثابت قدم ہوجائےاورتوحید اس کی طبیعت میں رچ بس جائے تواس کے بعد اسے کوئی ایسا شخص نقصان نہ پہنچاسکے گا جو اسے توحید سے دورہٹانا یا اس میں خلل ڈالنا چاہے۔اس سلسلہ میں اہم بات یہ ہے کہ انسان توحید کو اہمیت دے اور اس سلسلہ میں خود اپنامحاسبہ کرتا رہے اوراسے خوب اچھی طرح سے پہچان لے تاکہ شکوک وشبہات اسے راہ راست سے دور نہ لے جاسکیں۔ ازراہ جہالت قبروں کا طواف کرنا سوال : ہم بعض اسلامی ملکوں میں یہ دیکھتے ہیں کہ وہاں کچھ لوگ ازراہ جہالت قبروں کا طواف کرتے ہیں تو ان لوگوں کے بارے میں کیا حکم ہے، کیا انہیں مشرک قراردیا جائے گا؟ جواب: جوشخص بتوں کو پکارے یا ان سے استغاثہ وغیرہ کرے تو اس کا حکم بحمداللہ واضح ہے کہ یہ کفر اکبر ہے الا یہ کہ وہ یہ دعوی کرے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے قصد سے قبروں کا طواف کیا ہے جس طرح کعبہ کا طواف کیا جاتا ہے اوریہ گمان کرے کہ قبروں کا طواف جائز ہےاوراس کا اس سے قصداصحاب قبورسےتقرب کا حصول نہ ہو بلکہ قصد صرف اللہ وحدہ کے تقرب کا حصول ہو تو ایسے شخص کو کافر نہیں بلکہ بدعتی قراردیا جائے گا کیونکہ قبروں کے پاس جس طرح نماز پڑھنا بدعت ہے، اسی طرح قبروں کا طواف بھی ایک منکر بدعت ہے اوریہ سب باتیں بالآخر کفر تک پہنچانے والی ہیں، قبروں کے پجاریوں پر غلبہ اصحاب قبورکے تقرب کے حصول کا ہوتا ہے جس طرح کہ وہ ان کے نام پر جانوروں کو ذبح کرکے اوران کے نام کی نذر مان کر ان کے تقرب کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اوریہ سب شرک اکبر کی صورتیں ہیں، جو شخص ان کا ارتکاب کرتےہوئے مرجائے، وہ کافر مرےگا، اسے نہ غسل دیا جائے گا، نہ اس کا جنازہ پڑھا جائے گا اورنہ اسے مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن کیا جائے گا، آخرت میں اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہوگا اگراس کے پاس توحید کی دعوت نہیں پہنچی تویہ اہل فترت کے حکم میں ہوگا اوراس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کا قصہ ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے زمانہ ہی کو نہیں پایا جس کی وجہ سے وہ اپنی قوم کے دین پر تھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے ان کی مغفرت کے لیے دعاکرنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اجازت نہیں ملی کیونکہ وہ اپنی قوم کے دین پر تھیں، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کا معاملہ ہے کہ جب ایک سائل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے باپ کے بارے میں پوچھا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ’’ میرا باپ اورتمہارا باپ دونوں جہنم میں ہیں ۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کا انتقال زمانہ جاہلیت میں ہوا تھا اور وہ اپنی قوم کے دین پر تھے، لہذا ان کا حکم بھی کافروں کے حکم جیسا ہے لیکن وہ شخص جس تک دنیا میں توحید کی دعوت نہ پہنچے، وہ حق سے ناواقف ہو اورفوت ہوجائے توعلماء کے صحیح قول کے مطابق قیامت کے دن اس کا امتحان ہوگا، اگرامتحان کامیاب ہوگیا توجنت میں داخل ہوگااوراگر امتحان میں ناکام رہا توجہنم رسید ہوگا، ان تمام اہل فترت کے بارے میں بھی یہی حکم ہے، جن تک دین کی دعوت نہیں پہنچ سکی تھی کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَ‌سُولًا﴾ (الاسراء۱۷ /۱۵) ’’اورجب تک ہم پیغمبر نہ بھیج لیں عذاب نہیں دیا کرتے۔‘‘
Flag Counter