Maktaba Wahhabi

319 - 437
سودی بینکوں میں اپنی رقوم رکھنا سوال : جس شخص کے پاس نقد کیش ہواور وہ حفاظت کے لیے کسی بینک کے پاس اسے بطورامانت رکھ دے اورسال کی زکوۃ بھی اداکرے توکیا یہ جائز ہے یا نہیں؟براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔جزاکم اللّٰہ خیرا۔ جواب : خواہ سود نہ لے پھر بھی سودی بینکوں میں بطورامانت اپنا مال رکھنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ گناہ اورظلم کی باتوں میں اعانت ہے اوراللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے لیکن اگرکوئی شخص بینک میں اپنا مال رکھنے پر مجبورہوجائے اورسودی بینکوں کے سوا اس کے پا س اورکوئی صورت نہ ہو جس کے ذریعے وہ اپنے مال کو محفوظ رکھ سکے اوروہ اپنے مال پر سود بھی نہ لے تواس ناگریز ضرورت کی وجہ سے امید ہے بینک میں اپنا مال رکھنے میں کوئی حرج نہ ہوگا کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشادہے کہ: ﴿وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّ‌مَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِ‌رْ‌تُمْ إِلَيْهِ﴾ (الانعام۶ /۱۱۹) ’’جو چیزیں اس نے تمہارے لیے حرام ٹھہرادی ہیں وہ ایک ایک کرکے بیان دی ہیں مگر اس صورت میں کہ ان کے (کھانے کے )لیےناچارہوجاؤ ۔‘‘ اورجب کوئی اسلامی بینک مل جائے یا کوئی اورقابل اعتماد جگہ جس میں گناہ اورظلم کی باتوں میں تعاون نہ ہو تومال وہاں رکھا جائے کیونکہ اس صورت میں سودی بینک میں مال رکھنا جائز نہ ہوگا۔ سودی کاروبارکرنے والی کمپنیوں کے ساتھ تعاون۔۔۔۔ سوال : میں ایک تجارتی کمپنی میں اکاونٹنٹ ہوں اوریہ کمپنی بینک سے سودی قرض لینے کے لیے مجبورہے، میرے پاس بھی قرض کے معاہدے کی کاپی آتی ہے تاکہ میں کمپنی کے رجسٹروں میں اس کے قرض کا اندراج کردوں کیا میرا اس قرض کے معاہدہ کو درج کرنا سود کی کتابت شمار ہوگا کہ میرے لیے اس کمپنی کی ملازمت ہی جائز نہ ہو، نیز کیا اس معاہد ہ کو لکھنے کی وجہ سے میں گناہ گارہوں گا؟ جواب : مذکورہ کمپنی کے ساتھ سودی معاملات میں تعاون جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودکھانے والے، کھلانےوالے اورسود کے لکھنے والے اوراس کے دونوں گواہوں پر لعنت کی ہے اورفرمایا کہ’’وہ سب(گناہ میں)برابرہیں۔‘‘(صحیح مسلم)نیز حسب ذیل ارشادباری تعالیٰ: ﴿وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾’’ اورگناہ اورظلم کےباتوں میں تعاون نہ کیاکرو ۔‘‘کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے۔ سودی بینکوں کے ذریعہ رقوم کی منتقلی سوال : ہم ترک کارکن ہیں اورسعودی عرب میں کام کرتے ہیں ہماراملک ترکی جیسا کہ آپ سے مخفی نہیں ہےحکومت اورنظام کے اعتبار سے ایک سیکولرملک ہے اوراس میں سود بدترین طریقے سے پھیلا ہوا ہے حتی کہ سود کی شرح پچاس فی صد سالانہ ہے ۔ہم ترکی میں اپنے اہل عیال کے پاس ان بینکوں کی معرفت رقوم بھیجنے پر مجبور ہیں جو کہ سود کا سب سے بڑا سرچشمہ ہیں، اسی طرح ہم چوری، نقصان یا بعض دیگر خطرات کی وجہ سے بینکوں میں اپنی رقوم رکھنے پر مجبور ہیں، تواپنے ان حالات کے تناظر میں آپ کی خدمت میں دواہم سوال برائے فتوی پیش خدمت ہیں۔جزاکم اللّٰہ عنا خیر الجزاء۔ اولا: کیا ہمارے لیے یہ جائز ہے کہ اپنی رقوم کا سود بینکوں میں چھوڑنے کے بجائے اسے وصول کرکے فقیروں اورفلاحی
Flag Counter