Maktaba Wahhabi

331 - 437
اورحج کیا جائے اوراگرہرسال ممکن نہ ہوتودوسرےسال کرلیا جائےاوراگرآمدنی قربانی اورحج کے خراجات سے زیادہ ہوتواسے نیکی کے دوسرے کاموں پر خرچ کردیا جائے۔سوال یہ ہے کہ کیا و صیت کےمطابق حج کرنا لازم ہے؟حج کرنے والے توبہت ہیں لیکن دل مطمئن نہیں ہوتا کہ اس نے صحیح حج کیا ہے یا مادی منفعت کے حصول کے لیے، لہذا کیا یہ افضل نہیں ہے کہ اس مال کو حج کے بجائے دیگر نیک کاموں مثلا مسجدوں کے بنانے وغیرہ کے لیے صرف کردیا جائے؟ جواب : واجب یہ ہے کہ وصیت کرنے والے کی وصیت کے مطابق ہی عمل کیا جائےاورپھر حج بھی تقرب الٰہی کے حصول کا ایک ذریعہ ہے، لہذا وکیل کو چاہئے کہ وہ کوشش کرکے ایسے آدمی کو حج پر بھیجے جوبظاہر نیک اورمتقی معلوم ہوتا ہواوراس کا مقصد حصول مال نہ ہو بلکہ وہ تقرب الٰہی کے حصول کے لیے حج کرنا چاہتا ہو، دلوں کے بھید اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اوروہ انہی کے مطابق بدلہ دے گا۔ کیا متوفی کی طرف سے بینک عقاری کا قرض اداکرنا لازم ہے سوال : میرے والد مرحوم نے بینک عقاری (Land.Mortgage Bank)سے جو قرض لیا تھاکیا یہ بھی دین ہے اوراس کو اداکرنا لازم ہے؟ جواب : ہاں تم پر یہ واجب ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ترکہ میں سے بینک کے قرض کو بھی اداکرو۔ تقسیم وراثت کا ایک مسئلہ سوال : ایک شخص فوت ہوا اوراس کے وارثوں میں باپ، ایک بیٹی، ایک حقیقی بھائی، دوباپ کی طرف سے بھائی اورایک حقیقی بہن ہے، وارثوں میں اس کی وراثت کس طرح تقسیم ہوگی؟ جواب : سارے ترکہ کے دو حصے کرلیے جائیں گے، ان میں سے ایک حصہ بیٹی کو فرض ہونے کی وجہ سے اوردوسراباپ کو فرض وعصبہ کی بنیاد پر دیا جائے گا، بھائیوں کو کچھ نہیں ملے گا کیونکہ علماء کا اجماع ہے کہ باپ کی موجودگی میں بھائی وراثت سے محروم رہتے ہیں ۔اگرمیت کے ذمے قرض ہو تواسے وارثوں میں تقسیم سے قبل ترکہ سے اداکیا جائے گااورقرض کے بعد بچنے والے ترکہ کو مذکورہ تقسیم کے مطابق وارثوں میں تقسیم کیا جائے گا، اسی طرح میت کی طرف سے اگر کوئی ثابت شدہ شرعی وصیت ہو تو اسے بھی تقسیم سے قبل پورا کرنا ہوگا، جب کہ وصیت کل ترکہ کے ایک تہائی یا اس سے بھی کم سے متعلق ہو کیونکہ میت کوایک تہائی سے زیادہ وصیت کرنے کا اختیار نہیں ہے اوراگرکوئی اس سے زیادہ وصیت کرے تو ایک تہائی سے زیادہ پر عمل نہ ہوگا الا یہ کہ مکلف ومرشدوارثوں کی رضامندی ہواوراس بات کی دلیل کہ وارثوں میں ترکہ کی تقسیم سے پہلے قرض اداکیا اوروصیت پر عمل کیا جائے، حسب ذیل ارشادباری تعالیٰ ہے: ﴿يُوصِيكُمُ اللّٰه فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ‌ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَ‌كَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَ‌كَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِ‌ثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ﴾ (النساء۴ /۱۱) ’’ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دولڑکیوں کے حصے کے برابر ہے ۔۔۔(اوریہ تقسیم ترکہ میت کی )وصیت (کی تعمیل)کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے اداہونے کے بعد
Flag Counter