Maktaba Wahhabi

81 - 437
امورغیب کی خبر دینا ان کاہنوں کی صفت ہے جوہدایت سے محروم ہیں، نیز یہ ان دجال، شعبدہ باز اورنجومیوں کا دعوی ہے جو خود بھی صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے ہیں اورجاہل مسلمانوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔اارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُو﴾(الانعام۶ /۵۹) ’’اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں، جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔‘‘ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’غیب کی چابیاں پانچ ہیں۔‘‘ اور پھر آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: ﴿إِنَّ اللّٰه عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ﴾(لقمان۳۱ /۳۴) ’’صرف اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی مینہ برساتا ہے ۔‘‘ طلباءعلم پر واجب ہے کہ اس بات میں لوگ جس زبردست غلطی میں مبتلا ہوچکے ہیں اس پر انہیں تنبیہ کریں کیونکہ کل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان سے بازپرس ہوگی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّ‌بَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ‌ عَن قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ﴾(المائدہ۵ /۶۳) ’’ بھلا ان کے مشائخ اور علماء انہیں گناہ کی باتوں اور حرام کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے؟بلاشبہ وہ بھی برا کرتے ہیں ۔‘‘ اسی طرح یہ اعتقاد رکھنا کہ سیدوں(بنی ہاشم)کے سارے گناہ معاف ہیں خواہ وہ کوئی بھی عمل کریں، یہ حد درجہ جہالت وضلالت کی بات ہےکیونکہ اللہ تعالیٰ حسب ونسب کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ اس کے اوامر کی اطاعت کون بجالاتا اوراس کے نواہی سے اجتناب کون کرتا ہے ؟تقوی کس میں ہے اوراس کی معصیتوں اورنافرمانیوں سے کون دور ہے؟ حسب ونسب کسی کو فائدہ نہ پہنچاسکے گا، فرمان باری تعالیٰ یہ ہے: ﴿إِنَّ أَكْرَ‌مَكُمْ عِندَ اللّٰه أَتْقَاكُمْ﴾ (الحجرات۴۹ /۱۳) ’’بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے ۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےبھی فرمایا ہےکہ ’’اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اورتمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تو تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے۔‘‘اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے:’’خبردار!آگاہ رہوکہ جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے کہ اگر وہ صحیح ہوجائے توسارا جسم صحیح ہوجاتا ہےاوراگروہ خراب ہوجائے توسارا جسم ہی خراب ہوجاتا ہے۔آگاہ رہووہ ٹکڑا دل ہے ۔‘‘دیکھئے ابوطالب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چچا تھا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ قرابت اورحسب ونسب کی بلندی اس کے کچھ کام نہ آئی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ ابوطالب کلمہ پڑھ لے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دربار الٰہی میں اس کی سفارش کرسکیں لیکن اس نے کلمہ نہ پڑھا کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کے بارے میں ازل میں یہ لکھ دیا تھا کہ وہ اپنے آباؤاجدادکےدین پرفوت ہوگااوروہ دین، شرک اوربت پرستی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ان کے لیے استغفار(بخشش کی دعا)کرنے سے بھی منع فرمادیا: ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُ‌وا لِلْمُشْرِ‌كِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْ‌بَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ﴾ (التوبۃ۹ /۱۱۳)
Flag Counter