سمجھائیں اوربتائیں کہ عبادت صرف اورصرف اللہ وحدہ کا حق ہے، اس حق میں اس کے ساتھ کوئی سہیم وشریک نہیں ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ :
﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰه مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينََ﴾ (البینۃ۹۸ /۵)
’’اوران کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں۔‘‘
اورفرمایا:
﴿ فَاعْبُدِ اللّٰه مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ﴾ (الزمر۳۹ /۲)
’’اللہ کی عبادت کرو(یعنی)اس کی عبادت کو(شرک)سے خالص کر کے، دیکھوخالص عبادت اللہ ہی کے لیے(زیبا)ہے ۔‘‘
مزید فرمایا:
﴿وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ﴾(الاسراء۱۷ /۲۳)
’’اور تمہارے پروردگار نے ارشادفرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔‘‘
کے معنی یہ ہیں کہ تمہارے پروردگارنےیہ حکم دیا ہےکہ ۔۔۔۔۔لہذا تمام اسلامی ممالک کے اہل علم پر، ان ملکوں کے اہل علم پر جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اوردنیا میں کسی بھی جگہ رہنے والے اہل علم پر یہ واجب ہے کہ لوگوں کو اللہ کی توحید سکھائیں، انہیں علی وجہ البصیرت اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی تعلیم دیں اوراللہ تعالیٰ کی ذات گرامی کے ساتھ شرک سے انہیں ڈرائیں کہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے اورلوگوں کو بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے جنوں اورانسانوں کو پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ یہ اس کی عبادت کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات۵۱ /۵۶)
’’اور میں نے جنوں اورانسانوں کو اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه میری ہی عبادت کریں۔‘‘
اوراس کی عبادت یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کی جائے، اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے اوردلوں کو اس کی طرف متوجہ کیا جائے، ارشادباری تعالیٰ ہے :
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾(البقرۃ۲ /۲۱)
’’لوگو !اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اورتم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے)بچو ۔‘‘
باقی رہے وہ مسائل جو مخفی ہوتے ہیں مثلا مسائل معاملات، نمازاورروزہ کے بعض مسائل توان میں جاہل کو معذورتصور کیا جائے گا جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو معذورسمجھا تھا جس نے’’جبہ‘‘میں احرام باندھ لیا اوراسے خوشبوسے معطر بھی کررکھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:’’جبہ اتاردو، اپنے جسم سے خوشبو کو دھو ڈالواورعمرہ میں بھی اسی طرح کرو جس طرح حج میں کرتے ہو ۔‘‘اس شخص کی جہالت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فدیہ اداکرنے کا حکم نہیں دیا۔اسی طرح بعض دیگر مسائل جو مخفی ہوتے ہیں ان کے بارے میں جاہل کو بتایااورسکھایا جائے گالیکن وہ امور جو اصولی ہیں جن کا تعلق اصول عقیدہ، ارکان اسلام اورمحرمات ظاہرہ سے ہے، ان میں جہالت کا عذر قابل قبول نہ ہوگا۔اگرکوئی شخص مسلمانوں میں رہتے ہوئے یہ کہے کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ زنا حرام ہے تو اس کا یہ عذر قبول نہ ہوگا، بلکہ اس پر حد زنا جاری کی جائے گی یا
|