’’(اے نبی!) کہہ دو کہ میری نماز، میری قربانی، میراجینااورمیرا مرناسب اللہ رب العالمین ہی کے لیےہے جس کا کوئی شریک نہیں اورمجھ کو اسی بات کا حکم ملا ہے اورمیں سب سے اول فرماں بردارہوں ۔‘‘
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم )سے مخاطب ہوکر فرمایا:
﴿إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ﴿١﴾ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر۱۰۸ /۱۔۲)
’’(اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم )ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی ہے تو اپنے پروردگار کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی کیا کرو ۔‘‘
ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللّٰه أَحَدًا﴾ (الجن۷۲ /۱۸)
’’پس اللہ کے سوا کسی اورکی عبادت نہ کرو۔‘‘
اورفرمایا:
﴿وَمَن يَدْعُ مَعَ اللّٰه إِلَـٰهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ﴾ (المومنون۲۳ /۱۱۷)
’’اورجو شخص اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارتا ہے جس کی اس کے پاس کوئی بھی سندنہیں تواس کا حساب اللہ ہی کے ہاں ہوگا، کچھ شک نہیں کہ کافررستگاری(چھٹکارا) نہیں پائیں گے ۔‘‘
اسی طرح دین کا مذاق اڑانا، دین میں طعنہ زنی کرنا، دین کے ساتھ استہزاء کرنا اوردین کو گالی دینا، یہ سب کفر اکبر ہے۔اس کے ارتکاب کرنے والے کو بھی معذورتصور نہیں کیا جائے گاکیونکہ یہ بات بھی ضروری طور پر دین سے معلوم ہےکہ دین کو گالی دینایا رسول اللہ کو گالی دینایا استہزاءومذاق اڑانا بھی کفر اکبر ہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿قُلْ أَبِاللّٰه وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿٦٥﴾ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ﴾ (التوبۃ۹ /۶۵۔۶۶)
’’کہوکیا تم اللہ اوراس کی آیتوں اوراس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ؟بہانے مت بناؤتم ایمان لانے کے بعدکافرہوچکے ہو ۔‘‘
لہذا اہل علم پر واجب ہے، خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی رہتے ہوں، کہ یہ باتیں لوگوں کو بتائیں اوران کے سامنے انہیں ظاہر کریں تاکہ عوام کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے اوریہ امر عظیم لوگوں میں عام ہوجائے اوروہ مردوں کے ساتھ تعلق اوراستغاثہ کو چھوڑ دیں، خواہ اس کا تعلق دنیا میں کسی جگہ سے بھی ہو، مصر سے ہو یا شام سے، عراق سے ہو یا مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کے پاس سے یا مکہ مکرمہ سے ہویا کسی بھی اورجگہ سے تاکہ حاجیوں کو بھی یہ بات معلوم ہوجائے اورعام لوگوں میں بھی معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کا دین کیا ہے اوراس کی شریعت کیا ہے؟
علماء کے سکوت کی وجہ سے عوام کے تباہی وبربادی اورجہالت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے اس لیے اہل علم پر یہ واجب ہے، خواہ وہ دنیا میں کسی بھی جگہ کے رہنے والے ہوں، کہ وہ لوگوں کے پاس اللہ کے دین کو پہنچائیں، انہیں اللہ تعالیٰ کی توحید کا علم سکھائیں اوربتائیں کہ شرک کی کون کون سی قسمیں ہیں تاکہ وہ علی وجہ البصیرت شرک کو ترک کردیں اوراللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں ۔اسی طرح بدوی یا حضرت حسین رضی اللہ عنہ یا شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی قبروں کے پاس جوکچھ ہوتا ہے یا مدینہ منورہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کے پاس جوہوتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ علماءلوگوں کو
|