﴿اللّٰه لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ﴾ (البقرۃ۲ /۲۵۵) آخرتک پڑھ لو، اس سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقررکردہ ایک فرشتہ تمہاری حفاظت کرتارہے گااورصبح تک شیطان تمہارے قریب نہ آئے گا ۔‘‘میں نے اسے چھوڑ دیا، صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:’’تمہارے رات والے قیدی کا کیا بنا ؟‘‘میں نے عرض کیا :’’یارسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )اس نے مجھے کچھ کلمات سکھائے جن کے بارے میں اس کا یہ کہنا تھا کہ ان سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع دے گا ۔‘‘تومیں نے اسے چھوڑدیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’کون سے کلمات ؟‘‘ میں نے عرض کیا:’’اس نے مجھ سے کہاکہ جب تم اپنے بستر پرسونے کے لیے آؤ تو آیۃ الکرسی اول سے آخرتک پڑھ لو، اس سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقررکردہ ایک فرشتہ تمہاری حفاظت کرتارہے گااورصبح تک شیطان تمہارے قریب نہ آئے گا ۔‘‘صحابہ کرام رضی اللہ عنہ خیروبھلائی کی بات حاصل کرنے کے چونکہ شدید خواہش مند تھے، اس لیےحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن کر اسے چھوڑ دیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اس نے بات سچی کی ہے اگرچہ وہ خود بڑا جھوٹا ہے ۔‘‘پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:’’ابوہریرہ!تمہیں معلوم ہے یہ تین راتیں تم کس سے باتیں کرتے رہےہو؟‘‘ابوہریرہ نے عرض کیا:’’جی نہیں ۔‘‘فرمایا:’’یہ شیطان تھا۔‘‘ (صحیح البخاری مع الفتح، ج۴ص:۴۸۶)
صحیح بخاری وصحیح مسلم کی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہاسے مروی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ’’شیطان انسان کے اندر اس طرح چل پھر سکتا ہے، جس طرح خون گردش کرتا ہے ۔‘‘
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے ’’مسند‘‘جلد۴، ص:۲۱۶میں صحیح سند کے ساتھ یہ حدیث ذکر کی ہے کہ عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے یہ عرض کیا :’’یارسول اللہ!شیطان میرے اورمیری نماز وقراءت میں حائل ہوجاتا ہے ۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہ شیطان خنزب ہے جب تم اسے محسوس کروتوتعوذ پڑھ کر اپنے بائیں جانب تین بارتھوکو ۔‘‘حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ’’میں نے جب اسی طرح کیا تو اللہ عزوجل نے اسے مجھ سے دورفرمادیا ۔‘‘اسی طرح احادیث صحیحہ سے یہ ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ہر انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس کا ایک ساتھی فرشتوں میں سے اورایک شیطانوں میں سے مقررکیاہے حتی کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس سے مستثنی نہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے شیطان کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مددفرمائی اوروہ مسلمان ہوگیا ہےاورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ خیروبھلائی کے کام ہی کی ترغیب دیتا ہے۔
اللہ عزوجل کی کتاب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اوراجماع امت سے یہ ثابت ہے کہ جن انسان کے جسم میں داخل ہوسکتا اور اسے آسیب میں مبتلا کرسکتا ہے۔لہذا کسی عالم کے لیے یہ کیسے جائز ہےکہ وہ اس کا انکار کرے جب کہ اس کی بنیاد بھی علم وہدایت کے بجائے بعض ان اہل بدعت کی تقلید پر ہو جو اہل سنت والجماعت کے مخالف ہیں۔
فاللّٰه المستعان ولا حول ولا قوة الابالله۔
اب میں قارئین کرام کے سامنے اس سلسلہ میں اہل علم کے چند ارشادات نقل کروں گا۔مندرجہ ذیل ارشاد باری تعالیٰ :
﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ﴾ (البقرۃ۲ /۲۷۵)
’’جولوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے)اس طرح(حواس باختہ)اٹھیں گے جیسے کسی کو شیطان (جن)نے لپٹ کردیوانہ بنادیا ہو ۔‘‘
کے بارے مفسرین کے اقوال:
|