قیامت تک باقی رہنے والی نہ ہوتی توآپ اس کی تبلیغ کا حکم نہ دیتے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سنت اس شخص کے لیےحجت ہےجس نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان فیض ترجمان سے سنا ہواوراس کےلیے بھی یہ حجت ہے جس کے پاس یہ صحیح اسنادکے ساتھ پہنچی ہو۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی اورفعلی احادیث کو یاد کیا اورپھر انہیں تابعین تک پہنچادیا، پھرتابعین نے انہیں بعد میں آنے والوں تک پہنچادیا اورپھرا س کے بعد نسل درنسل اورقرن درقرن ثقہ علماء نے احادیث مبارکہ کو منتقل کیا، انہیں مستقل کتابوں میں جمع کیا اورصحیح وضعیف کو بھی واضح کردیا اوراس سلسلہ میں مشہور ومعروف قوانین اورضوابط بھی مقررکیے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سند صحیح ہے یا ضعیف، اہل علم نے کتب حدیث، مثلا صحیحین وغیرھماکو قبولیت سے نوازا اور ان کی مکمل طورپر حفاظت کی، جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس کی حفاظت کا بھی اہتمام فرمایااوراسے بے ہودہ لوگوں کے لغو، ملحدوں کے الحاد اور باطل پرستوں کی تحریف سے بچایا تاکہ اس ارشادباری تعالیٰ کی حقانیت ثابت ہوجائے کہ:
﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ (الحجر۱۵ /۹)
’’ بے شک یہ (کتاب)نصیحت ہمیں نے اتاری ہے اورہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔‘‘
بلا شک وشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ وحی ہے اوراس کی حفاظت کا بھی اللہ تعالیٰ نے اس طرح ذمہ اٹھایا ہے، جس طرح اس نے اپنی کتاب مقدس کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ہے اوراس مقصد کے لیےاللہ تعالیٰ نے نقاد علماء کو توفیق بخشی جنہوں نے باطل پرستوں کی تحریف اورجاہلوں کی تاویل کی نفی کردی اورسنت کے رخ زیبا سے ہر اس آلائش کو دورکردیا جسے جاہل، کذاب اورملحد لوگوں نے چپکانے کی کوشش کی تھی اللہتعالیٰ نے یہ اہتمام اس لیے فرمایا ہے، سنت رسول اللہ، کتاب اللہ کی تفسیر ہے، مجمل احکام کی تفصیل ہے اورپھر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کئی مستقل ایسے احکام بھی ہیں، جن کے بارے میں قرآن مجیدمیں ذکر نہیں ہے، مثلا احکام رضاعت کی تفصیل، میراث کے بعض احکام، ایک شخص کا، عورت اوراس کی پھوپھی یا خالہ سے بیک وقت نکاح کا حرام ہونا اوردیگر بہت سے وہ احکام جوصرف سنت صحیحہ سے ثابت ہوتے ہیں اورکتاب اللہ میں ان کاکوئی ذکر نہیں ہے۔
اب ہم حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم اوران کے بعد اہل علم کے حوالہ سے کچھ ایسی باتیں بیان کریں گے جن سے یہ معلوم ہوگا کہ ان کے ہاں سنت کی کس قدرتعظیم تھی اوروہ اس کے مطابق عمل کو کس طرح واجب قراردیتے تھے، چنانچہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایاتوکچھ عرب قبائل مرتد ہوگئے (اورانہوں نے زکوۃ اداکرنے سے انکار کردیا)تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’اللہ کی قسم!میں ہر اس شخص کے خلاف جہاد کروں گاجونماز اورزکوۃ میں فرق کرے گا ۔‘‘حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’آپ ان سےکس طرح جہاد کرسکتے ہیں، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تویہ فرمایاہے کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک جہاد کرنے کا حکم ہے جس وقت تک کہ وہ لا الہ الاللہ کے قائل نہیں ہوجاتے، جب وہ لا الہ الاللہ کے قائل ہوجائیں گے تومجھ سے اپنے خون اورمال کو بچالیں گےالایہ کہ لا الہ الاللہ کا کوئی حق ہو ۔‘‘حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا:’’کیا زکوۃ لا الہ الاللہ کا حق نہیں ہے ؟اللہ کی قسم!اگریہ لوگ بکری کے اس بچے کے بطورزکوۃ دینے سے انکار کریں گے، جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اداکیا کرتے تھے تومیں اس انکا رکی وجہ سے بھی ان کے خلاف جہا دکروں گا ۔‘‘حضرت عمررضی اللہ عنہ نے
|