جیساکہ ایک شاعرنےبھی کہاہے:
اذا حللت بواد لا انيس به
فاجلد عميرة لا عار ولا حرج
’’جب تم کسی ایسی وادی میں فروکش ہوجہاں دوست(بیوی)نہ ہوتومشت زنی کرلواس میں کوئی عاریاحرج نہیں ہے ۔‘‘
امام احمدرحمۃاللہ علیہ کا مقام ومرتبہ اگرچہ مسلم لیکن آپ کا یہ قیاس عموم قرآن کے خلاف ہے اورجو قیاس اس طرح کا ہواسے فساداعتبارکی وجہ سے ردکردیا جاتا ہےجیساکہ ہم نے اس کتاب مبارک (تفسیر قرطبی)میں کئی بارذکر کیا اورصاحب’’مراقی السعود‘‘ کے اس قول کا حوالہ بھی دیا ہے کہ
والخلف للنص او اجماع دعا
فساد الاعتباركل من وعي
’’ نص اوراجماع کے خلاف جو قیاس ہواسے تمام اہل علم نے فسادالاعتبارکے نام سے موسوم کیاہے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا ارشادگرامی ہے:
﴿وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ﴾ (المومنون۲۳ /۵) ’’اورجو لوگ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔‘‘
اوراس سے صرف ان دوصورتوں کو مستثنی قراردیا ہےجوحسب ذیل ہیں:
﴿٥﴾ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ﴾ (المومنون۲۳ /۶) ’’ مگر اپنی بیویوں سے یا (کنیزوں سے)جو ان کی ملک ہوتی ہیں ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے صرف ان لوگوں کو ملامت سے مستثنی قراردیا ہے جو صرف اورصرف بیوی یا لونڈی کی جنسی تسکین کا ذریعہ بناتے ہیں اورپھر ان دو صورتوں کے سوا دیگر تمام طریقوں اورصورتوں سے منع کرتے ہوئے بے حد جامع الفاظ استعمال کرتے ہوئے فرمایا:
﴿فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ﴾ (المومنون۲۳ /۷)
’’اورجو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہ (اللہ کی مقررکی ہوئی)حد سے نکل جانے والے ہیں ۔‘‘
اوربلاشک وشبہ یہ عموم مشت زنی کرنے والے کو بھی شامل ہے ۔عموم قرآن کے ظاہرسےاعراض صرف اسی صورت میں کیا جاسکتا ہے جب کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےکوئی ایسی دلیل موجودہوجس کی طرف رجوع کرنا واجب ہواور وہ قیاس جونص کےخلاف ہووہ فاسدالاعتبارہےجیساکہ ہم نےقبل ازیں واضح کردیاہے، والعلم عنداللّٰه تعاليٰ۔
ابوالفضل عبداللہ بن محمدصدیق حسنی ادریسی اپنی کتابالاستقصاءلادلةتحريم الاستمناءاو العادة لسرية میں لکھتے ہیں کہ مالکیہ، شافعیہ، حنفیہ اورجمہورعلماء کا مذہب یہ ہےکہ مشت زنی حرام ہےاوریہی مذہب صحیح ہے، اس مذہب کےخلاف کوئی بات کہناجائزنہیں ہےجیساکہ ان دلائل سےواضح ہوتاہے، جنہیں بتوفیق الہٰی ذیل میں پیش کیاجاتاہے:
دلیل اول:
ارشادباری تعالیٰ ہے:
|