اورفرمایا:
﴿وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ﴾ (الاحزاب۳۳ /۵۳)
’’اور جب پیغمبر کی بیویوں سےکوئی سامان مانگوتوپردےکےپیچھےسےمانگو، یہ تمہارےاور ان کے(دونوں کے)دلوں کےلیےبہت پاکیزگی کی بات ہے ۔‘‘
یہ آیات کریمہ اس امر پر دلالت کناں ہیں کہ عورتوں کے لیے حکم شریعت یہ ہے کہ فتنہ کے خوف کی وجہ سے وہ اپنے گھروں ہی میں رہیں، ہا ں البتہ بوقت ضرورت وہ اپنے گھروں سے باہر نکل سکتی ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ حکم دیا ہے کہ جب بوقت ضرورت وہ اپنے گھروں سے باہر نکلیں تو اس طرح اظہار تجمل نہ کریں جس طرح دور جاہلیت میں وہ اپنی زینت کا اظہار کیا کرتی تھیں، یعنی اپنے حسن وجمال کے مقامات کو مردوں کے سامنے ظاہر نہ کریں۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ’’ میرے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کر اورکوئی فتنہ نہیں ہے ۔‘‘(متفق علیہ)بروایت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ۔نیز صحیح مسلم میں یہ روایت اسامہ اورسعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ دونوں سے مروی ہے ۔صحیح مسلم میں حضرت اابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بے شک دنیا شیریں اورسرسبزوشاداب ہے اوراللہ اس میں تمہیں یکے بعد دیگرے بھیجنے والا ہے اوروہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو، دنیا سے بچ جاؤ اورعورتوں سے بچ جاؤ کیونکہ بنی اسرائیل میں رونماہونے والا پہلا فتنہ بھی عورتوں کا ہی تھا ۔‘‘سچ فرمایا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، بلاشبہ عورتوں کی وجہ سے خصوصا اس دورمیں بہت بڑا فتنہ رونما ہوچکا ہے، جب کہ عورتوں نے پردہ کرنا چھوڑ دیا ہے، زمانہ جاہلیت کی طرح زیب و زینت کا اظہار شروع کردیا ہے، جس کی وجہ سے فواحش ومنکرات کی کثرت ہوگئی ہے اوربہت سارے ملکوں میں نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں نے، اللہ تعالیٰ کے مقررکردہ نظام شادی سے روگردانی کرکے بدکاری کی زندگی بسر کرنا شروع کردی ہے ۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ بھی فرمادیا ہے کہ پردہ سے سب کے دلوں کو پاکیزگی حاصل ہوگی تواس سے معلوم ہو ا بے پردگی سے سب کے دل ناپاک بھی ہوجاتے ہیں اورراہ حق سے منحرف بھی!
یاد رہے کلاس روم میں طالبہ کا طالب علم کے ساتھ اکٹھے بیٹھنا فتنے کا بہت بڑا سبب ہے کہ اس کی وجہ سے اس پردے کو ترک کردیا جاتا ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنی مومن بندیوں کو حکم دیا ہے اورمنع فرمایا ہے کہ وہ اپنی زینت کا اظہار بجز ان محرموں کے کسی کے سامنے کریں، جن کا اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور کی سابقہ آیت میں ذکر فرمایاہے۔جو شخص یہ کہتاہے کہ پردے کا حکم خاص طورپر صرف امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے لیے تھا، وہ بہت دورکی کوڑی لاتا اورکتاب وسنت کے ان بے شمار دلائل کی مخالفت کرتا ہے، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پردے کاحکم عام ہے، یہ حکم امہات المومنین کے لیے بھی ہے اوردیگرتمام مسلمان عورتوں کے لیے بھی، نیز یہ شخص درج ذیل ارشادباری تعالیٰ کی بھی مخالفت کرتا ہے کہ :
﴿ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ﴾ (الاحزاب۳۳ /۵۳)
’’یہ تمہارےاوران کے(دونوں کے)دلوں کےلیےبہت پاکیزگی کی بات ہے ۔‘‘
لہذایہ کہنا جائز نہیں ہے کہ پردہ امہات المومنین اورحضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں کے لیے توپاکیزگی کا سبب تھادوسروں کے لیے نہیں اوراس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ امہات المومنین اورحضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نسبت دوسرے لوگوں کو پردے کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دوسرے لوگوں میں قوت ایمان اوربصیرت
|