Maktaba Wahhabi

354 - 437
﴿وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِن قُرْ‌آنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ﴾ (یونس۱۰ /۶۱) ’’اورآپ جس حال میں بھی ہوں، قرآن کی تلاوت کررہے ہوں یا کوئی بھی عمل کررہےہوں، توتم جو کام بھی کرتے ہو ہم بھی موجود ہوتے ہیں جب تم اس کام کو کرنا شروع کرتے ہو۔‘‘ لہذاہر آدمی پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے اوراس بات سے حیا محسوس کرے کہ اللہ تعالیٰ اسے کوئی معصیت کا کام کرتے ہوئے دیکھے یا واجب الاطاعت امورمیں کوئی کمی بیشی دیکھے ۔مومن مردوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کو یہ حکم دیا ہے: ﴿وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِ‌هِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُ‌وجَهُنَّ﴾ (النور۲۴ /۳۱) ’’ اورمومن عورتوں سےبھی کہہ دیجیے کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھاکریں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔‘‘ غض بصر(نگاہ نیچی رکھنا)اورحفظ فرج(عصمت وعفت)کا یہ حکم اس لیے دیا تاکہ اسباب فتنہ سے محفوظ رہیں نیز اس طرح عفت مآبی وسلامتی کی راہ کی طرف توجہ مبذول کرانا مقصود ہے۔پھر فرمایا: ﴿وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ‌ مِنْهَا﴾ (النور۲۴ /۳۱) ’’اوراپنی آرائش کوظاہرنہ ہونےدیں مگرجواس میں سےکھلارہتاہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’ مَا ظَهَرَ‌ مِنْهَا‘‘ سے ظاہری لباس وغیرہ مراد ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ ہے کہ زیب تن کیا ہوا لباس اگرظاہر ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ لباس حسین وجمیل اورفتنہ کا باعث نہ ہو۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے جو ’’ومَا ظَهَرَ‌ مِنْهَا ‘‘ کی تفسیر میں منقول ہے اس سے چہرہ اورہاتھ مراد ہیں تواس تفسیرکوآیت حجاب کے نزول سے قبل کی حالت پر محمول کیا جائے گاکیونکہ بعدمیں تو اللہ تعالیٰ نے تمام جسم کی ستر پوشی کا حکم دے دیا جیسا کہ سورۃ الاحزاب کی مذکورہ آیت سے ثابت ہے اوراس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے علی بن ابی طلحہ نے بیان کیا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانو ں کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ ’’وہ جب کسی ضرورت کے باعث اپنے گھروں سے باہر نکلا کریں تواپنے سروں اورچہروں کو اوڑھنیوں سے چھپا لیا کریں۔‘‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اورکئی اہل علم ودانش نے بھی اسی بات کی نشاندہی فرمائی ہے اوربلاشک وشبہ حق بات بھی یہی ہے کیونکہ ساری فتنہ سامانی ہی چہروں اورہاتھوں کے حسن وجمال کی بدولت ہے ۔اللہ تعالیٰ کا یہ ارشادقبل ازیں ذکر ہوچکا ہےکہ: ﴿وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَ‌اءِ حِجَابٍ﴾ (الاحزاب۳۳ /۵۳) ’’ اورجب پیغمبروں کی بیویوں سےکوئی سامان مانگوتوپردےکےپیچھےسےمانگو ۔‘‘ اس آیت شریفہ میں قطعا کوئی استثناء نہیں۔یہ محکم ہے اوراس پر عمل کرنا واجب ہے۔اس مسئلہ میں ازواج مطہرات اورمسلمانوں کی عورتیں سب برابر ہیں۔سورۂ نورکی مذکورہ آیات سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ کیونکہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بوڑھی عورتوں کو ناامیدی نکاح اورعدم تبرج کی دو شرطوں کے ساتھ حجاب سے مستثنی قراردیا ہے جیسا کہ تفصیل کے ساتھ قبل ازیں ذکر کیا جاچکا ہے ۔یہ مذکورہ آیت حجت ظاہرہ اوربرہان قاطع ہے کہ عورتوں کے لیے بے پردگی اوراظہار زیب وزینت حرام ہے ۔قصہ افک والی حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نےجب حضرت صفوان بن معطل
Flag Counter