اسلام سے محرومی تھی اورسلمان فارسی، صہیب رومی اوربلال حبشی رضی اللہ عنہم کو جس بات نے قریب کردیا تھا وہ دولت ایمان تھی نیکی، تقوی، اتباع شریعت اورصراط مستقیم کی پابندی تھی لیکن آج کل بعض ہاشمی لوگوں نے جویہ خود ساختہ اصول بنالیا ہے کہ ہاشمی خاتون کا غیر ہاشمی مرد سے نکاح جائز نہیں تو اس جہالت اورباطل تصرف کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہاشمی خاندان سے رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے بہت سی ہاشمی خواتین نکاح سے محروم رہتی ہیں یا ان کی شادی میں بے پناہ تاخیر ہوجاتی ہے اوراس کانتیجہ بھی خوشگوار نہیں ہوتا کہ اس قدر تاخیر سے شادی کی وجہ سے یہ خواتین اولاد سے بالکل محروم رہتی ہیں یا ان کے ہاں بہت کم اولاد ہوتی ہے ۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللّٰه مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللّٰه وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴾ (النور۲۴ /۳۲)
’’اوراپنی(قوم کی)بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو اوراپنے غلاموں اورلونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں(نکاح کردیاکرو)اگروہ مفلس ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے خوش حال کردے گااوراللہ(بہت)وسعت والا(اور)سب کچھ جاننے والاہے ۔‘‘
اس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے بیوہ عورتوں کے نکاح کرنے کامطلق حکم دیا ہے تاکہ یہ حکم غنی، فقیر اوردیگر تمام مسلمانوں کے لیے عام ہو۔ اسلامی شریعت نے چونکہ نکاح کی ترغیب دی ہے اوربہت تاکید کے ساتھ اس کی ترغیب دی ہے لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی اطاعت کے لیے جلدی کریں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاہے کہ ’’اے گروہ نوجواناں!تم میں سے جس شخص کے پاس مالی استطاعت ہو تو شادی کرلے کیونکہ اس سے نظر نیچی رہتی ہے اورشرم گاہ کی حفاظت ہوتی ہے اورجس کو استطاعت نہ ہو تواسے چاہیے کہ وہ روزہ رکھے، روزہ اس کے لیے شہوت کو دبانے کا سبب ہوگا۔‘‘ عورتوں کے وارثوں کو چاہئے کہ وہ عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں یہ ان کے پا س اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں، اللہ تعالیٰ اس امانت کے بارے میں ان سے ضرور بازپرس کرے گا، لہذا انہیں چاہیے کہ یہ فورا اپنی بیٹیوں، بہنوں اوراپنے بیٹوں کی شادی کریں تاکہ ہر ایک اس زندگی میں اپنا کرداراداکرسکے اورفتنہ وفساداورجرائم بھی کم ہوں اوریہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ بچیوں کی شادی نہ کرنا یا اس میں بہت تاخیر کردینا اخلاقی جرائم اورمعاشرے میں بگاڑ پیداکرنے کا سبب ہے بلکہ یوں سمجھیے کہ یہ وہ کدال ہے جو معاشرہ کی اخلاقی قدروں کو توڑ پھوڑ دیتا اورتباہی وبربادی سے دوچارکردیتا ہے۔
اے بندگان الٰہی !اپنے بارے میں بھی اللہ سے ڈرو، ان بہنوں اوربیٹیوں کے بارے میں بھی، جن کا اللہ تعالیٰ نے تم کو والی بنادیا ہےاوراپنے مسلمان بھائیوں کے بارے میں بھی اورسب مل کرکوشش کروکہ معاشرہ خیروبھلائی اورسعادت وکامرانی کا گہوارہ بن جائے۔معاشرہ کی نمو، ارتقاء اور تکاثر کے راستے آسان ہوں اورمعاشرہ میں جرائم کے پھیلانے والے اسباب کاازالہ ہو اورجان لوکہ تم سب سے ایک دن تمہارے اعمال کے بارے میں سوال اورحساب وکتاب ہوگا اورتمہیں اپنے اعمال کے مطابق جزایاسزاسےدوچارہونا پڑے گا۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٩٢﴾ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ (الحجر۱۵ /۹۲۔۹۳)
’’ تمہارے پروردگار کی قسم!ہم ان سے ضرورپرسش کریں گے ان کاموں کی جو وہ کرتے رہے ۔‘‘
اورفرمایا:
|