ضرورت کی وجہ سے بیع سلم کو جائز قراردیا گیا ہے، اسی طرح بیع سلم اوراس طرح کی کئی مثالوں کی وجہ سے علماء نے نصوص شریعت کے مقابلہ میں لوگوں کی ان حاجتوں اورضرورتوں کی وجہ سے کئی امور کو جائز قراردیا ہے، جن کی وجہ سے معیشت کے سلسلہ میں لوگوں کی مصلحتیں پوری ہی نہ ہوسکتی ہوں ۔‘‘
اس کا جواب یہ ہے کہ بینکوں کے معاملات ان سودی معاملات سے قطعا مختلف نہیں ہیں جن کی حرمت نص سے ثابت ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جنوں اور انسانوں کی طرف مبعوث فرمایاہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوایسے احکام دیئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر قیامت تک آنے والے تما م جنوں اورانسانوں کے لیے ہیں، لہذا واجب یہ ہے کہ جدید معاملات کو بھی وہی حکم دیا جائے گا جوقدیم معاملات کا حکم تھا جب کہ دونوں کے معنی ایک ہوں، باقی رہا صورتوں اورالفاظ کا اختلاف تو اس کی کوئی قیمت نہیں کیونکہ اعتبار معانی اورمقاصد کا ہے اورسبھی جانتے ہیں کہ آج کل کے ان متاخرین کے بھی سودی معاملات سے وہی مقاصد ہیں جو اولین کے مقاصد تھے اگرچہ صورتیں متنوع اورالفاظ مختلف ہیں، لہذا الفاظ اورصورتوں کے اختلاف کی وجہ سے قدیم وجدید سودی معاملات میں فر ق کرنا باطل ہے کیونکہ ان سب صورتوں کے معانی ومقاصد ایک ہی ہیں، جن لوگوں نے حنین کےدن یہ کہا کہ ’’یا رسول اللہ !جیسے ان مشرکین کے لیے ذات انواط ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقررفرمادیجئے؟‘‘ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی اس بات کو بنی اسرائیل کی اس با ت کے مشابہہ قراردیا جو انہوں نے حضرت موسی علیہ السلام سے کہی کہ’’ ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دیجئے جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں‘‘( [1] )تواس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اختلاف الفاظ کو کوئی اہمیت نہ دی کیونکہ معنی ایک ہی تھے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو سزادی کہ انہوں نے جمعہ کے دن جال لگادیا تاکہ اس شکار کو حاصل کریں جسے ہفتہ کے دن شکا رکرناحرام قراردیا گیا تھا، اس حیلہ کی وجہ سے انہیں معذوربھی نہ گردانا حالانکہ انہوں نے جال سے شکار اتوارکے روز کیا تھا کیونکہ وسیلہ اگرچہ مختلف تھا لیکن معنی ایک ہی تھا، نصوص شرعیہ سے اس طرح کی ہمیں بہت سی مثالیں ملتی ہیں، صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’تم ان امور کا ارتکاب نہ کرو، جن کا ارتکاب یہودیوں نے کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کوادنی حیلوں کے ساتھ حلال سمجھنے لگ جاؤ ۔‘‘
اسے بیع سلم کے ساتھ تشبیہ دینامحض ایک مغالطہ اورایک ایسی چیز کا ذکر کرنا ہے جو بے فائدہ ہے کیونکہ بیع سلم کا |