ارتکاب پر وعید سنائی ہے اوریہ حقیقت معلوم ہے کہ سنت صحیحہ قرآن کریم کی تفسیراوراس کے مخفی مقامات کی تشریح وتوضیح ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورۃ النحل میں ارشادفرمایا ہے:
﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ﴾ (النحل۱۶ /۴۴)
’’اورہم نے آپ پرذکراورنصیحت (قرآن)نازل کیا تاکہ آپ لوگوں پر ان تعلیمات کو واضح کردیں جوان کی جانب نازل کی گئی ہیں اورتاکہ وہ غوروفکر کریں ۔‘‘
اورفرمایا:
﴿ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ ۙ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴾ (النحل ۱۶ /۶۴)
’’اورہم نے آپ پر کتاب اس لیے نازل کی ہےتاکہ آپ لوگوں پر ا ن چیزوں کو کھول کر(واضح) بیان کردیں جن میں ان کواختلاف ہےاوریہ کتاب مومنوں کے لیے سامان ہدایت اورباعث رحمت ہے ۔‘‘
اس مضمون کی اوربھی بہت سی آیات ہیں ۔ڈاکٹر ابراہیم نے شیخ رشید رضا کے حوالے سے جویہ ذکر کیا ہے کہ انہوں نے سیونگ بینک کے سود کو جائز قراردیا ہے تویہ ان کی غلطی ہے اوراس مسئلہ میں ان کے اس غلط مؤقف کو قبول کرناجائز نہیں ہے کیونکہ دلیل ان کے اورہر اس شخص کے خلاف ہے جو اپنی رائے اوراجتہاد سے نصوص کی مخالفت کرتا ہے اور اصول میں یہ بات طے شدہ ہے کہ نصوص موجود ہوں تو ان کے مقابلہ میں کسی کی رائے اورکسی کے اجتہاد کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ رائے اوراجتہاد سے تو ان مسائل میں کام لیا جاتا ہے جن کے بارے میں کوئی نص موجود نہ ہو، تواس صورت میں جس کا اجتہاد صحیح ہوگا اسے دوگنا ثواب ملتا ہے اورجس کا اجتہاد غلط ہواسے بھی ایک ثواب ملتا ہے بشرطیکہ وہ اجتہاد کا اہل ہو اورطلب حق کے لیے وہ اپنی پوری استعداد اورصلاحیت سے کام لے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہےکہ’’جب کوئی حاکم فیصلہ کرے، اجتہاد سے کام لے اوراس کا اجتہاد صحیح ہو تو اسے دوگنا اجرملے گااورجب وہ فیصلہ کرے، اجتہادسے کام لے اوراس کااجتہادغلط ہو تواسے ایک اجر ملے گا ۔‘‘(متفق علیہ، بروایت عمروبن عاص رضی اللہ عنہ اورصحیح مسلم میں یہ روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے )اوروہ مسائل جن کے بارے میں قرآن کریم یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نص موجود ہو تواس نص کی مخالفت میں کسی کے لیے اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بلکہ واجب یہ ہے کہ ا س نص کومضبوطی سے تھام لیا جائے اوراس کے تقاضا کے مطابق عمل کیا جائے، چنانچہ اس اصول پر تمام اہل علم کا اجماع ہے۔ واللّٰه المستعان، ولا حول ولا قوة الاباللّٰه۔
رابعا: ڈاکٹر ابراہیم نے اپنے مقالہ کے آخر میں لکھا ہے کہ’’خلاصہ بحث یہ ہے کہ اس سود جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حرام قراردیا ہے اوربینکوں کے معاملات کے درمیان اس واضح مقارنہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بینکوں کے معاملات ان سودی اعمال سے قطعا مختلف ہیں جن سے قرآن کریم نے منع کیا ہے کیونکہ یہ جدید معاملات ہیں اوریہ ان نصوص قطعیہ کے حکم کے تابع نہیں ہیں جن کا حرمت سود کے سلسلہ میں قرآن کریم میں ذکر آیا ہے، لہذا بینکوں کے اموراورمعاملات کا جائزہ بندگان الٰہی کی مصلحتوں اوران کی شرعی ضرورتوں کے حوالہ سے لیا جائے گاجیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مقاصد کی خاطر بیع سلم کو جائز قراردیا ہے، حالانکہ یہ غیر موجود چیز کی بیع یعنی ایک ایسی چیز کی بیع ہوتی ہے جو بائع کے پاس موجو د ہی نہیں ہوتی ۔اصل میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیع سے منع فرمایا ہے لیکن علماء کا اجماع ہے کہ لوگوں کی
|