نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’سونے کو سونے کے ساتھ نہ بیچوالایہ کہ وہ برابر ہواوربعض کو بعض سے کم یا زیادہ نہ کرواورغائب کو حاضر کے ساتھ نہ بیچو۔‘‘
صحیح مسلم میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’سوناسونے کےبدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جوجوکے بدلے کھجورکھجورکے بدلے اورنمک نمک کے بدلے جب کہ یہ اشیاءایک جیسی ہوں، برابر ہوں اوردست بدست ہوں اوراگر اصناف مختلف ہوں تو پھر جس طرح چاہو بیچوجب کہ وہ دست بدست ہوں ۔‘‘اس مضمون کی بہت سی احادیث صحیحین اوردیگر کتب موجود ہیں۔
حدیث اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاجویہ ارشادہےکہ’’سودصرف ادھارہی میں ہے ۔‘‘تواہل علم کےنزدیک اس سےمرادیہ ہےکہ سود کی اکثروبیشترصورتوں کاتعلق ادھار سے ہے، اس سےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مرادنہیں ہےکہ سودکی تمام صورتوں کاتعلق ادھارہی سے ہے جیسا کہ مذکورہ دونوں احادیث اوران کی ہم معنی دیگرصحیح حدیثوں سےیہ ثابت ہوتاہےکہ سودی معاملات کا تعلق رباالفضل سے بھی ہے اور رباالنسية سے بھی۔ جو شخص بینک کےسودی کھاتوں میں رقم جمع کراتاہےوہ اوربینکردونوں معاملوں یعنی ادھار اورسودکویکجاکردیتے ہیں اوراس طرح گناہ کا ارتکاب کرتےہیں۔
سود اداکرنے والاکبھی محتاج بھی ہوتاہےتوصرف اس کی محتاجی ہی سودکی حرمت کی موجب نہیں ہے بلکہ یہ اس لیےحرام ہےکہ اس عقدمیں سودبھی ہے اور تنگدست پرظلم بھی کہ اسےظلم سےسوداداکرنےپرمجبورکیاجاتاہےجب کہ وہ اصل رقم کےاداکرنےسےبھی عاجزوقاصرہوتاہے، یہی وجہ ہےکہ اس معاملہ کی حرمت اورگناہ میں اوربھی اضافہ ہوجاتاہےکیونکہ واجب تو یہ تھاکہ تنگدست کومہلت دی جاتی اوراسےاس سودپرمجبورنہ کیاجاتاجسےاللہ تعالیٰ نےحرام قرار دیا ہے۔ قرض لینےاوردینےوالےکےسودی معاملےکےنفع میں شریک ہونےسےسودی معاملہ حرام کی بجائےحلال نہیں ہوجاتااورنہ اس سےیہ معاملہ شرعی بن جاتاہےکہ اس میں سودجائزہوکیونکہ شارع حکیم نےاس کی طرف التفات نہیں کیابلکہ سودکومطلقاحرام قراردیاہےجیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث سےثابت ہوتاہے، جن میں سےکچھ قبل ازیں بیان کی جاچکی ہیں۔اگرسودپررقم حاصل کرنےوالےکےفائدہ اٹھانےسےسودحلال ہوتاتواللہ سبحانہ وتعالیٰ اسےقرآن کریم میں بیان فرمادیتایااسےاپنےرسول امین علیہ من ربہ افضل الصلوٰۃوالتسلیم کی زبانی بیان فرمادیتا۔اللہ تعالیٰ نےسورۃالنحل میں ارشاد فرمایا ہے کہ:
﴿وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ﴾(النحل۱۶ /۸۹)
’’اورہم نےتم پر(ایسی)کتاب نازل کی ہےکہ(اس میں)ہرچیزکا(مفصل)بیان ہےاورمسلمانوں کےلیےہدایت، رحمت اوربشارت ہے ۔‘‘
صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہما سےروایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ’’اللہ تعالیٰ نےجونبی بھی مبعوث فرمایا، اس پریہ فرض تھاکہ اپنےعلم کےمطابق اپنی امت کی خیر کی طرف رہنمائی کرےاوراپنےعلم کےمطابق اپنی امت کوشرسےڈرائے ۔‘‘اورہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم توتمام رسولوں سے افضل، بلاغ کے اعتبارسےاکمل اوربیان کے اعتبارسے سب سے بڑھ کرتھے، اگرمعین فائدہ کے ساتھ معاملہ جائز ہوتا، یعنی اگرقرض لینے والے کے فائدہ کی صورت میں سود جائز ہوتا تواسےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لیے بیان فرمادیتےاوراس کےحکم کو واضح فرمادیتے بلکہ امرواقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صریح احادیث میں اس کی حرمت بیان فرمائی، اس سے بچنے کی تلقین کی اوراس کے
|