Maktaba Wahhabi

307 - 437
گا ۔‘‘ اورفرمایا: ﴿وَمَن يَتَّقِ اللّٰه يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِ‌هِ يُسْرً‌﴾ (الطلاق۴ /۶۵) ’’ اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرے گاتواللہ تعالیٰ اس کے کام میں سہولت پیدا کردےگا ۔‘‘ ثالثا: ابراہیم نے اپنے مقالہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’’اس سوال کا ہمیں اب تک جواب نہیں ملاکہ فائدہ کے لیےاقتصاری سرگرمیوں کو فقہاءاسلام کس نظر سے دیکھتے ہیں؟اگرفائدہ کے لیے قرض دیا جائے تو وہ ان کی نظر میں کیوں حرام ہے۔۔۔۔ ۔‘‘الخ۔ جواب : یہاں سے لے کر انہوں نے اپنے مقالہ کے آخر تک جو ذکر کیا ہے اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تمام فقہا ء علماء اسلام نے سود کا جائزہ لیا اوراسے حرام قراردیا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے سود کی حرمت ثابت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ احادیث مستفیض (مشہور)ہیں، ان میں کوئی ابہام بھی نہیں اوریہ قطعی طورپر صراحت کے ساتھ دلالت کناں ہیں کہ مال کے اسی جنس کے ساتھ اضافہ کی صورت میں خواہ یہ اضافہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو، صریحاسود ہے جو حرام ہے لیکن مقالہ نگار نے ۔۔۔اللہ تعالیٰ اسے ہدایت عطافرمائے اوررشدوبھلائی سےنوازے۔۔۔۔ان تمام احادیث سے اعراض کیا ہے، ان کی طرف قطعا التفات نہیں کیا اورقرآن کریم میں وارد مجمل ربا کے بارے میں بات کی ہےاورپورا زورصرف کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سود کی صرف ایک ہی صورت ہے اوروہ یہ کہ جب تنگ دست مقروض اپنے قرض کے اداکرنے سے عاجز وقاصر ہوتو قرض دینے والے سے معین فائدہ کی شرط کی بنیاد پر مزیدمہلت لے لے، یہ ان کی تحقیق کا خلاصہ ہے اوراس کے علاوہ سود کی دیگر تمام صورتوں کو اس بنیاد پر حلال قراردینے کی کوشش کی ہے کہ ان کے خیال میں لوگوں کو ان تمام صورتوں میں لین دین کرنے کی ضرورت ہے اوربندوں کی مصلحتیں ان سودی معاملات کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوسکتیں جن پر بینکنگ کے نظام کا انحصار ہے ۔مقالہ نگار نے اپنے مؤقف کی تائید میں موفق ابن قدامہ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اورعلامہ ابن قیم کے مجمل کلام کے بعض حوالوں سے بھی استدلال کرتے ہوئےکہا ہے کہ شرع شریف ان مصلحتوں سے منع نہیں کرتی جو کسی کو نقصان پہنچائے بغیر مسلمانوں کے لیے منفعت بخش ہوں بشرطیکہ وہ شریعت مطہرہ کے نصوص کے خلاف نہ ہوں۔ان ائمہ کرام کا یہ کلام مقالہ نگا رکے موقف کی دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ ائمہ کرام اوردیگر حضرات نے اس انداز سے جن مصالح کی بابت بات کی ہے تواس سے مراد وہ مصالح ہیں، جن کی شریعت میں ممانعت نہ ہو، یعنی یہ بات ایسے اجتہادی مسائل کے بارے میں ہے جن کے متعلق کوئی ایسی نص نہ ہو جس سے حکم شریعت کی وضاحت ملتی ہو لیکن اس مسئلہ کے بارے میں یہ صورت حال نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی صحیح احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سودکی دونوں صورتیں رباالفضل اوررباالنسيئه حرام ہیں۔بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ رباالفضل کی حرمت، تحریم وسائل کے باب سے ہے کیونکہ کوئی عقل مند بھی کسی چیز کو اسی کی جنس کے ساتھ دست بدست اضافہ کی صورت میں نہیں بیچتا کیونکہ اضافہ توصر ف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ معاوضہ میں دی جانے والی چیز کو تاخیر سےاداکیا جائے یا دونوں میں سے ایک دوسری سے زیادہ قیمتی ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب ردی کھجورکے دوصاع کو نفیس کھجور کے ایک صاع کے بدلہ میں بیچااورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اوہ!یہ توخالص سود ہے، یہ توخالص سود ہے اس طرح نہ کرو ۔‘‘(متفق علیہ)اورصحیحین میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
Flag Counter