اورتیسرامقدمہ اوریہ کہ’’بینکوں کے بغیر اقتصادی قوت حاصل نہیں ہوسکتی اور بینک سودکےبغیرنہیں چل سکتے ۔‘‘تویہ دونوں مقدمےباطل ہیں وہ شرعی دلائل جوہم نےقبل ازیں بیان کیےہیں نیزنبی صلی اللہ علیہ وسلم کےعہدسےلےکربینکوں کےوجودمیں آنےتک کامسلمانوں کاعمل ان دونوں مقدموں کےباطل ہونےپردلالت کرتاہے، چنانچہ گزشتہ صدیوں میں جن کی تعدادتیرہ سےبھی زیادہ ہےمسلمانوں کی اقتصادیات بینکوں کےوجوداورسودی کاروبارکےبغیرہی مستحکم تھی، ان کی ثروت ودولت بارآورتھی، معاملات درست تھے، انہوں نےشرعی احکام کی پابندی کرکےبہت سےمنافع حاصل کیےاوربےحدوحساب مال کمائے۔اللہ تعالیٰ نےمسلمانوں کوان کےدشمنوں پرفتح ونصرت عطافرمائی، انہوں نےدنیاکےاکثروبیشترعلاقےپرحکومت کی، بندگان الہٰی پراللہ تعالیٰ کی شریعت کےمطابق حکمرانی کی کہ اس دورمیں بینکوں کاوجودتھا نہ سودی معاملات بلکہ مقالہ نگارجناب ابراہیم کی رائےکےبرعکس بینکوں کایہ سودی نظام مسلمانوں میں تفریق کاسبب بناہے، اس سےان کی اقتصادیات تباہ ہوگئی ہے، آپس میں حسدبغض پیداہوگیا، نیزاتفاق واتحادختم ہوگیاہےکیونکہ سودی معاملات کانتیجہ حسدوبغض، عداوت، برکت سےمحرومی اورسزاؤں کےاترنےکی صورت میں برآمدہوتاہے، ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿يَمْحَقُ اللّٰه الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ﴾(البقرۃ۲ /۲۷۶)
’’اللہ تعالیٰ سودکومٹاتاہےاورصدقے(خیرات)کوبڑھاتاہے ۔‘‘
کیونکہ سودکےسبب قرض کی رقم میں جودوگناچوگنااضافہ ہوجاتاہےوہ حسدوبغض اوردشمنی کاسبب بنتاہےاورپھراس کےسبب بزدلی وکم ہمتی پیداہوتی ہےمحنتوں اورمفیدمنصوبوں میں کمی آجاتی ہےکیونکہ سرمایہ دارکام کاج کرنے، مفیدمنصوبوں اورصنعت وزراعت میں سرمایہ لگانےکی بجائے، سودکےذریعےاپنےسرمایہ کوبڑھاناچاہتےہیں۔
اللہ تعالیٰ نےاپنےبندوں کےلیےکئی قسم کےمعاملات کوجائزقراردیاہےجن کےزریعےوہ منافع بھی کماسکتےہیں اوراپنی دولت کوبڑھابھی سکتےہیں، معاشرہ کےلیےمنفعت بخش کاموں میں تعاون کرسکتےہیں اوربےروزگارلوگوں کوروزگاربھی فراہم کرسکتےہیں اورسود، گمراہی اورمختلف قسم کی ناپاک کمائی سےبھی بچ سکتےہیں، چنانچہ ان معاملات میں سےمضاربت اورشراکت کی وہ صورتیں ہیں جومعاشرہ کےلیےمفیدہیں، نیزمضاربت ومشارکت کی بنیادپرقائم کی جانےوالی وہ فیکٹریاں ہیں جولوگوں کی ضرورت کےلیےاسلحہ، لباس، برتن اورکارپٹ(قالین)وغیرہ تیارکرتی ہیں۔اسی طرح زراعت کی کئی قسمیں ہیں، جن کو بروئےکار لا کر زمین سےفائدہ اٹھایاجاسکتاہے، اس سےمعاشرہ کےفقراءوغیرہ کوبھی فائدہ پہنچتاہے، اس سےہروہ شخص جس میں ادنیٰ سی بھی بصیرت ہویہ جان سکتاہےکہ سودی بینک مستحکم اقتصادیات اورمصالح عامہ کےخلاف ہیں۔آج ہمیں جوتباہی وبربادی، سستی ونامرادی، برکت سےمحرومی، دشمنوں کاغلبہ وتسلط، مختلف قسم کی سزائیں، بھیانک اورخوفناک نتائج نظرآرہےہیں، ان کا ایک بڑاسبب سودبھی ہےہم اللہ تعالیٰ سےدعاکرتےہیں کہ وہ مسلمانوں کوان خرابیوں سےمحفوظ رکھے اور انہیں بصیرت وحق پراستقامت عطافرمائے۔
ثانیا:ڈاکٹرابراہیم نےلکھاہےکہ’’ہماری معاشیات میں بینکنگ سسٹم کی وہ اہمیت ہےجوانسانی جسم میں دل کی اہمیت ہے ۔‘‘
جواب : نہیں یہ بات نہیں ہےبلکہ کہنایوں چاہئےکہ بینکنگ کایہ سسٹم ہمیں سودکی طرف دھکیلتاچلاجارہاہےحالانکہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہےجیساکہ گزشتہ ادوارمیں خصوصامسلمانوں کےسنہری دورمیں بینکوں اورسودی کاروبارکےبغیربھی ہماری معاشی حالت بہت مضبوط ومستحکم اورسودسےپاک تھی جیساکہ قبل ازیں ارشادکیاگیاہے، اس دورمیں اللہ
|