Maktaba Wahhabi

290 - 437
اورعشاء کی دورکعتیں پڑھیں، دونوں نمازوں کے لیے اذان ایک مگر اقامتیں دوتھیں، مزدلفہ ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب بسر فرمائی، نماز فجر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں ادافرمائی، فجر کی دو سنتیں بھی پڑھیں، اذان بھی ایک اوراقامت بھی ایک تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشعر کے پاس تشریف لے آئے، یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا ذکر کیا، تکبیر وتہلیل اوردعا میں مصروف رہے، دعا ہاتھ اٹھا کرمانگی اورفرمایا کہ’’میں یہاں کھڑا ہوا ہوں اور ساراعرفہ موقف ہے ۔‘‘اس سے معلوم ہوا کہ سارامزدلفہ حاجیوں کے لیے موقف ہے، ہر حاجی اپنی جگہ رات بسر کرسکتا ہے اوراپنی جگہ پر اللہ تعالیٰ کا ذکر اوراستغفارکرسکتا ہے اور اس بات کی ضرورت نہیں کہ ضروراسی جگہ کھڑا ہوجہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا موقف تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ کی رات کمزوروں کو یہ اجازت دے دی تھی کہ وہ رات کے وقت ہی منی کی طرف جاسکتے ہیں، لہذا معلوم ہوا کہ اس رخصت پر عمل کی وجہ سے اگر عورتیں، مریض، بوڑھے اورجوان کےتابع ہوں اگررات کے آخری نصف حصہ میں مزدلفہ سے منی چلے جائیں تواس میں کوئی حرج نہیں تاکہ رخصت پر عمل بھی ہوجائے اوربھیڑ کی وجہ سے مشقت سے بھی بچ جائیں، نیز یہ لوگ جمرہ کو رات کے وقت بھی رمی کرسکتے ہیں جیسا کہ حضرت ام سلمہ اورحضرت اسماء بنت ابی بکررضی اللہ عنہا سے یہ ثابت ہے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکررضی اللہ عنہا نے ذکر کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اس کی اجازت عطافرمادی تھی اورپھرجب دن خوب روشن ہوگیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم تلبیہ کہتے ہوئے منی کی طرف روانہ ہوئے، جمرہ عقبہ کا قصدفرمایااورسات کنکریاں ماریں، ہرکنکری کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ اکبر پڑھتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانور کو نحر کیا، پھرسرمبارک منڈایااورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سے بیت اللہ شریف کا قصد فرمایااورطواف کیا ۔قربانی کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگر کسی نے رمی سے پہلے قربانی کرلی، یا ذبح سے قبل حجامت بنوالی یا رمی سے قبل بیت اللہ چلاگیا توان تمام سوالوں کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’لاحرج‘‘ اس میں کوئی حرج نہیں ۔راوی کا بیان ہے کہ اس دن تقدیم یا تاخیر کی جس صورت کے بارے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاگیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اب کرلو کوئی حرج نہیں ۔‘‘چنانچہ ایک آدمی نے سوال کیا: یا رسول اللہ !میں نے طواف سے قبل سعی کرلی ہے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کوئی حرج نہیں، تواس سے معلوم ہوا کہ حاجیوں کے لیے سنت یہ ہے کہ عید کے دن وہ رمی جمرہ سے آغاز کریں پھر قربانی کریں اگر ان پر ہدی لازمی ہوپھر بال منڈوائیں یا کتروائیں لیکن یادرہے کہ بال کتروانے سے منڈوانا افضل ہے کہ بال منڈوانے والوں کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بارمغفرت اوررحمت کی دعا فرمائی تھی اوربال کتروانے والوں کے لیے صرف ایک باردعاء فرمائی تھی۔۔۔اس سے حاجی کو تحلل اول حاصل ہوجاتا ہے یعنی اب وہ سلا ہوا کپڑا پہن سکتا ہے، خوشبو استعمال کرسکتا ہے اورعورت کے سوا ہر وہ چیز اس کے لیے حلال ہوجاتی ہے، جو احرام کی وجہ سے حرام ہوئی تھی اورپھر وہ بیت اللہ جائے اورعید کے دن یا اس کے بعدطواف کرے۔۔۔۔۔اوراگرمتمتع ہوتو صفاومروہ کی سعی بھی کرے اوراس سےاس کے لیے عورت سمیت ہروہ چیزحلال ہوجائے گی جو جو احرام کی وجہ سے حرام ہوئی تھی۔ اگرحاجی مفرد یا قارن ہے تواس کے لیے وہ پہلی سعی ہی کافی ہوگی جو اس نے طواف قدوم کے ساتھ کی تھی اوراگراس نے طواف قدوم کے ساتھ سعی نہیں کی تھی تواب طواف افاضہ کے ساتھ اس کے لیے سعی واجب ہوگی۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم منی واپس تشریف لے آئے اورآپ نے عید کا باقی دن اورگیارہ بارہ اورتیرہ کے ایام یہیں گزارے، ان ایام تشریق میں سے ہر دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم زوال کے بعد رمی جمارکرتے، ہر جمرہ کو سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر
Flag Counter