رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ظہر، عصر، مغرب، عشاء اورفجر کی نمازیں منی میں ادافرمائیں، ان نمازوں کو قصر تو کیا لیکن انہیں جمع کرکے نہیں بلکہ ہر نماز کو اس کے وقت پر اداکیا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کی وجہ سے سنت یہی ہے کہ اس دن نمازوں کو قصر لیکن جمع کے بغیر اداکیا جائے۔حاجیوں کے لیے اس سفر میں مسنون یہ ہے کہ وہ تلبیہ، اللہ عزوجل کے ذکر، قرآن مجید کی تلاوت اورنیکی کے دیگر کاموں مثلا دعوت الی اللہ، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اورفقراء کے ساتھ احسان وغیرہ میں مشغول رہیں۔جب عرفہ کے دن سورج طلوع ہوا تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عرفات کی طرف روانہ ہوئے کچھ لوگوں کی زبان پر تلبیہ تھا اور کچھ تکبیرات پڑھ رہے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات پہنچے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم بالوں سے بنائے گئے ایک قبہ میں فروکش ہوئے جوخاص طورپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لگایا گیا تھا۔نبی علیہ الصلوۃوالسلام نے اس کے سائے سے استفاوہ کیا تومعلوم ہوا کہ حاجیوں کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ خیموں اور درختوں کے سائے سے استفادہ کریں۔
جب سورج ڈھل گیا تو نبی علیہ الصلوۃوالسلام اپنی سواری پر سوار ہوئے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، انہیں وعظ ونصیحت کی، مناسک حج سکھائے، سوداور اعمال جاہلیت سے ڈرایا اورانہیں بتایا کہ ان کے خون، مال اورعزتیں ان پر حرام ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب اوراس کے رسول کی سنت کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا اورفرمایا کہ جب تک کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔
تمام مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت پر عمل پیرا ہوں، جہاں کہیں بھی ہوں اس پر عمل کریں، خصوصا مسلمانوں کے تمام حکمرانوں پر بھی یہ واجب ہے کہ وہ کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھام لیں اورتمام امورومعاملات میں انہیں کے مطابق عمل کریں، اپنی اپنی قوموں سے بھی ان کے مطابق عمل کرائیں کیونکہ دنیا وآخرت میں عزت، سربلندی، سعادت اورنجات کی یہی راہ ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس راہ پر چلنے کی توفیق عطافرمائے!
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو میدان عرفات میں ظہر وعصر کی نمازیں قصروجمع ۔۔۔جمع تقدیم۔۔۔کے ساتھ ایک اذان اوردواقامتوں سے پڑھائیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم موقف کی طر ف متوجہ ہوئے اورقبلہ رخ ہوکر اپنی سواری پر کھڑے ہوکر اللہ کا ذکر کیا اورہاتھ اٹھا کر دعا کی حتی کہ سورج غروب ہوگیا، اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ بھی نہیں رکھا ہوا تھا تو اس سے معلوم ہوا کہ حاجیوں کے لیے شرعی حکم یہی ہے کہ وہ اسی طرح کریں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں کیا تھا، اللہ کے ذکر، دعا اورتلبیہ میں غروب آفتاب تک مشغول رہیں، دعا ہاتھ اٹھا کرکریں اوراس دن روزہ بھی نہ رکھیں ۔صحیح حدیث سے ثابت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ’’جس طرح اللہ تعالیٰ کثرت کے ساتھ عرفہ کے دن لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اسی طرح کسی اوردن اللہ تعالیٰ کثرت سے آزاد نہیں کرتا، اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے بہت قریب ہوجاتا ہےاوران کی وجہ سے اپنے فرشتوں کے سامنے فخر کا اظہار فرماتا ہے ۔‘‘ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ ’’میرے بندوں کی طرف دیکھو!یہ میرے پاس پراگندہ حال اورغبارآلودآئے ہیں، یہ میری رحمت کے امیدوار ہیں لہذا میں تمہیں گواہ بنا کر یہ کہتا ہوں کہ میں نے اپنے ان بندوں کے گناہوں کو معاف کردیا ہے ۔‘‘صحیح حدیث سے یہ بھی ثابت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ’’میں یہاں کھڑا ہوا ہوں لیکن ساراعرفہ موقف ہے ۔‘‘
غروب آفتاب کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تلبیہ پڑھتے ہوئے مزدلفہ کی طرف روانہ ہوئے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی تین
|