Maktaba Wahhabi

291 - 437
پڑھتے، جمرہ اولی وثانیہ کی رمی سے فراغت کے بعد ہاتھ اٹھا کردعا کرتے، دعا کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ اولی کو اپنی بائیں طرف اور جمرہ ثانیہ کودائیں طرف کرلیتے لیکن تیسرے جمرہ کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ٹھہرتے تھے، پھر تیرہ تاریخ کو رمی جمارکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئےاورمقام ابطح میں قیام فرمایااورظہر، عصر، مغرب اورعشاء کی نمازیں ادافرمائیں! رات کے آخری پہر آپ مکہ مکرمہ تشریف لے آئے اورصبح کی نماز لوگوں کو پڑھائی، طواف وداع فرمایااورچودہ تاریخ کو نماز فجر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کی طر ف روانہ ہوگئےتھے۔ عليه من ربه افضل الصلاة والتسليم اس سے معلوم ہوا کہ حاجیوں کے لیے سنت یہی ہے کہ وہ ایام منی میں اسی طرح کریں جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، یعنی ہر روز زوال کے بعد تینوں جمروں کو رمی کی جائے، ہر جمرہ کو سات سات کنکریاں ماری جائیں، ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر پڑھا جائے، پہلی رمی کے بعد رک کر قبلہ رخ ہوکر اورہاتھ ٹھا کراس طرح دعا کی جائے کہ جمرہ بائیں طرف ہو، دوسری رمی کے بعد بھی اسی طرح کیا جائےاوردعاکے وقت جمرہ کو اپنے دائیں طرف رکھا جائے، اس طرح کرنا مستحب ہے، واجب نہیں ہے اورتیسری رمی کے بعد وقوف نہ کیا جائے۔اگرزوال کے بعد اورغروب آفتاب سے قبل رمی آسانی سے ممکن ہو تو علماء کے صحیح قول کے مطابق اس غروب ہونے والے سورج کے دن کی رمی رات کے آخری پہر تک کی جاسکتی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے رحمت ووسعت کے پیش نظر ہے۔اگر کوئی شخص بارہ تاریخ کی رمی جمارکے بعد، تیرہ تاریخ کی بھی رمی کرے تواس میں کوئی حرج نہیں لیکن رسول اللہ کے عمل کی موافقت کی وجہ سے افضل یہ ہے کہ تیرہ تاریخ کی رمی کو تیرہ تاریخ ہی کو کیا جائے۔ حاجی کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ گیارہ تاریخ کی رات منی ہی میں گزارے، بہت سے اہل علم کے نزدیک ان راتوں کو منی میں بسر کرنا واجب ہے، اگر رات کا اکثر حصہ بسرکرلیا جائے تویہ بھی کافی ہے، جن لوگوں کے پاس کوئی شرعی عذر ہو، مثلا کارکن اورچرواہے وغیرہ توان کے لیے منی میں شب بسر کرنا واجب نہیں ہے اگر حجاج جلدی کرلیں اورغروب آفتاب سے قبل منی سے روانہ ہوجائیں توپھر تیرہ تاریخ کی رات منی میں بسر کرنا واجب نہیں ہے لیکن اگر رات آگئی تو پھر تیرہ تاریخ کی رات منی میں گزارنا ہوگی اوریہ رات منی میں بسر کرنے کے بعد یہاں سے روانہ ہونا ہوگا، تیرہ تاریخ کے بعد رمی نہیں ہے، خواہ کو ئی منی ہی میں مقیم کیوں نہ ہو۔ جب حاجی اپنے ملک میں واپس جانے کا ارادہ کرے، ا س پر واجب ہے کہ طواف وداع کے طور پر بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ ’’تم میں سے کوئی شخص رخصت نہ ہو حتی کہ وہ اپنا آخری وقت بیت اللہ میں گزارے ۔‘‘ہاں البتہ حیض ونفاس والی عورتوں پر طواف وداع نہیں ہے کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ ثابت ہے کہ انہوں نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ روانہ ہونے سے پہلے آخری وقت بیت اللہ میں گزاریں الا یہ کہ کسی عورت کے ایام شروع ہوگئے ہوں۔ اگرکسی نے طواف افاضہ کو مؤخر کیا ہو اوروہ سفر شروع کرنے سے پہلے یہ طواف کرنا چاہتا ہوتو دونوں مذکورہ احادیث کے عموم کے پیش نظر طواف افاضہ، طواف وداع سے بھی کفایت کرجائے گا۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنی رضا کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے، ہمارے اورتمہارےحج کو شرف قبولیت سے نوازے، ہمیں اورآپ کو جہنم کی آگ سے آزادی نصیب فرمائے، بلاشبہ وہی قادرو کارساز ہے۔
Flag Counter