Maktaba Wahhabi

280 - 437
دکھاوے اورلوگوں کی تقلید کی وجہ سے نہ رکھے اورنہ اس لیے رکھے کہ چونکہ اس کے گھر والے اوراس کے شہر والے روزےرکھ رہے ہیں، لہذا وہ بھی رکھ رہا ہے بلکہ مسلمان پر واجب ہے کہ وہ روزہ اس عقیدہ اوریقین کے ساتھ رکھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر روزہ فرض قراردیا ہے اوروہ اس فرض کو اداکرکے اپنے رب سے اس کا اجر حاصل کرنا چاہتا ہے، اسی طرح یہ بھی واجب ہے کہ وہ رمضان کی راتوں کا قیام بھی ایمان اورحصول ثواب کی نیت سے کرے، قیام رمضان بھی کسی اورسبب سے نہ کرے، یہی وجہ ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایاکہ’’جس نے ایمان اورحصول ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے، اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اورجس نے ایمان اورحصول ثواب کی نیت سے رمضان کاقیام کیا اس کے بھی سابقہ تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اورجس نے لیلۃ القدرکا قیام ایمان اورحصول ثواب کی نیت سےکیا اس کے بھی سابقہ تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔‘‘ جن امور کا حکم بعض لوگوں سے مخفی ہوتا ہے، ان میں سے کچھ اس طرح کے امور بھی ہیں کہ اگرروزے دارکو کوئی زخم لگ جائے یا نکسیر پھوٹ پڑے یا قے آجائے یا پانی یا تھوک غیر اختیاری اورغیر ارادی طورپر اس کے گلے تک پہنچ جائے توکیا ان سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟یاد رہے ان میں سے کسی امر سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتاہاں البتہ اگرکوئی شخص جان بوجھ کر قے کرے تواس سے روزہ فاسد ہوجائے گاکیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ’’جسے غیر اختیاری طورپر قے آجائے اس پر قضا نہیں لیکن جو شخص قصد وارادہ سے قے کرے تو اس پر قضا لازم ہے ۔‘‘ روزے دار اگر طلوع فجر تک غسل جنابت نہ کرسکے یا عورت طلوع فجر سے قبل حیض ونفاس سے پاک توہوجائے مگرطلوع فجر تک غسل نہ کرسکے توان صورتوں میں روزہ لازم ہوگا، طلوع فجر کے بعد غسل کرنا روزے سے مانع نہیں ہوگالیکن غسل کو اس قدر مؤخر نہیں کرنا چاہئے کہ سورج طلوع ہوجائے بلکہ عورت کے لیے واجب یہ ہے کہ وہ طلوع آفتاب سے پہلے غسل کرکے نماز فجر اداکرے، اسی طرح جنبی کو بھی چاہئے کہ وہ غسل کو اس قدر مؤخر نہ کرے کہ سورج طلوع ہوجائے بلکہ واجب ہے کہ غسل کر کے طلوع آفتاب سے پہلے نماز فجر اداکرے اوراگر جنبی مردہوتواسے غسل جنابت میں اوربھی زیادہ جلدی کرنی چاہئے تاکہ وہ نماز فجر باجماعت اداکرسکے۔ جن امور سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، ان میں سے کیمیائی تجزیہ کے لیے خون کا قطرہ نکالنا اورایسا انجکشن لینا بھی ہے، جو غذائی مقصد کے لیے نہ ہو لیکن افضل اورمحتاط بات یہ ہے کہ اگر ممکن ہوتو اس طرح کے کاموں کو رات تک مؤخر کردیاجائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ’’اس کام کو چھوڑ دو جس میں شک ہو اوراس کو اختیار کرلو جس میں شک نہ ہو ۔‘‘نیز نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ بھی فرمان ہے کہ’’جو شخص شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین وعزت کو محفوظ کرلیا۔‘‘ وہ امورجن کاحکم بعض لوگوں کو واضح طور پر معلوم نہیں ان میں سے ایک نماز میں عدم اطمینان بھی ہے، نماز خواہ فرض ہو یا نفل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اطمینان وسکون سے نما ز پڑھنا، نماز کے ان ارکان میں سے ہے، جن کے بغیر نماز صحیح نہیں ہوتی، اطمینان وسکون کے معنی یہ ہیں کہ نماز اس طرح خشوع وخضوع اورجلد بازی کا مظاہر ہ کیے بغیر اداکی جائے کہ ہرہر جوڑ اپنی جگہ واپس آجائے، رمضان میں بہت سے لوگ نماز تراویح اس طرح پڑھتے ہیں کہ وہ نہ تو نماز میں پڑھے جانے والے قرآن کو سمجھتے ہیں اورنہ نماز ہی کو اطمینان سے اداکرتے ہیں بلکہ نماز میں ٹھونگےمارتے ہیں، حالانکہ ا س طرح پڑھی جانے والی نماز باطل ہے اورپڑھنے والا گناہگاراوراجروثواب سے محروم ہے!
Flag Counter