وہ امورجن کاحکم بعض لوگوں سے مخفی ہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جائز نہیں نماز تراویح کی بیس سے کم رکعتیں پڑھی جائیں جب کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جائز نہیں کہ نماز تراویح کی گیارہ یا تیرہ سے زیادہ رکعات پڑھی جائیں، یہ دونوں باتیں ہی درست نہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ موقف غلط اوردلائل کے مخالف ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ رات کی نماز میں بڑی وسعت ہے، اس میں کوئی حد بندی نہیں ہے کہ اس کی خلاف ورزی جائز ہی نہ ہو، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز کی گیارہ رکعتیں اورکبھی تیرہ اورکبھی رمضان و غیر رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کم بھی پڑھی ہیں اورجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارے میں سوال کیا گیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’رات کی نماز دو دو رکعت ہے اورجب کسی کو یہ ڈر ہوکہ صبح ہونے والی ہے، تووہ ایک رکعت پڑھ لے، اس سے اس کی ساری پڑھی ہوئی نماز وتر ہوجائے گی ۔‘‘(متفق علیہ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان و غیر رمضان میں رات کی نماز کی رکعات کو معین نہیں فرمایا یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میں کبھی تیئس اورکبھی گیارہ رکعات پڑھیں اوریہ سب کچھ حضرت عمررضی اللہ عنہ اورآپ کے عہد میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے ثابت ہے۔
بعض سلف کا رمضان میں معمول یہ تھا کہ وہ چھتیس رکعتیں پڑھتے اورپھر تین وتر پڑھتے اور بعض سے اکتالیس رکعتیں پڑھنا بھی ثابت ہے جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور بعض دیگر اہل علم نے ذکر فرمایا ہے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں بہت گنجائش ہے، نیز انہوں نے یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ افضل یہ ہے کہ جوشخص لمبی قراءت کرے اور لمبے لمبے رکوع اورسجدے کرے تو وہ رکعات کی تعدادکم کرے اور جس شخص کی قراءت اوررکوع وسجود چھوٹے ہوں، وہ رکعات کی تعداد میں اضافہ کرے۔
جو شخص اس مسئلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر غور کرے گا تواسے معلوم ہوگا کہ افضل یہ ہے کہ رمضان و غیر رمضان میں رات کی نمازگیارہ یا تیرہ رکعتیں پڑھی جائیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثروبیشتر حالات میں یہی معمول ہواکرتا تھا، نمازیوں کے لیے بھی اسی میں سہولت ہے، اس طرح خشوع وخضوع اور اطمینا ن وسکون بھی زیادہ ہوسکتا ہے ہاں البتہ اگر کوئی شخص اس سے زیادہ پڑھ لے توپھر بھی کوئی حرج اورکراہت نہیں ہے جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا جاچکا ہے۔
جو شخص امام کے ساتھ قیام رمضان کررہا ہو اس کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ امام کے ساتھ قیا م میں مکمل شرکت کرے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ ’’آدمی جب امام کے ساتھ آخر تک قیام کرتا ہے، تواللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک رات کے قیام کا ثواب لکھ دیتا ہے ۔‘‘
تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس مبارک م ہیں ے میں تمام عبادتوں کے بجالانے میں خوب محنت اورشوق سے حصہ لیں، زیادہ سے زیادہ نفل نماز اداکریں، غوروتدبر کے ساتھ قرآن مجید کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کریں، زیادہ سے زیادہ تسبیح وتہلیل، تحمید وتکبیر اوراستغفارپڑھیں، خوب خوب دعائیں کریں، نیکی کا حکم دیں، برائی سے منع کریں، دعوت الی اللہ کا زیادہ سے زیادہ کام کریں، فقیروں اورمسکینوں کی مددکریں، والدین کے ساتھ حسن سلوک، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی، پڑوسیوں کی عزت افزائی، بیماروں کی بیمارپرسی اوراسی طرح نیکی کے دیگر کاموں میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں’’اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم میں نیکی کا کس قدر جذبہ اورشوق ہے، وہ تمہاری وجہ سے فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے، لہذا یاد رکھو کہ وہ شخص انتہائی بدبخت ہے جو اس ماہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت
|