Maktaba Wahhabi

200 - 437
٭ ’’یہ گویا ان کی عبادت کی ایک قسم ہے ۔‘‘ یہ بہت مجمل بات ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ یہاں اس طرح تفصیل سے بات کی جائے کہ جو شخص میلاد کی محفل اس لیے قائم کرتا ہے کہ صاحب میلاد کا تقرب حاصل کرے اور اس طرح نفع وبرکت حاصل کرنے کی امید کرے یا یہ قصد(ارادہ)کرے کہ اس سے اس کی مشکلات اور پریشانیوں کا ازالہ ہوجائے گا تو اس نیت سے محفل میلاد کے قیام کو صاحب میلاد کی عبادت تصور کیا جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ اسے پکارے بھی یااس سےاستغاثہ کرےیااس کےلیےنذر مانےیااس کےلیےذبح کرےیاعبادت کی دیگر اقسام میں سے کسی عبادت کو اختیار کرے تو یہ شرک ہوگااوراکثر وہ لوگ اسی طرح کرتےہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یاحضرت حسین رضی اللہ عنہ یابدوی وغیرہ کے مولود کا اہتمام کرتےہیں۔ اگر کوئی شخص تقرب الہٰی کےحصول کےلیےمیلاد منانےکااہتمام کرتاہےیعنی وہ یہ سمجھتاہےکہ میلاد منانابھی ان عبادات میں سےہے، جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتاہےتو یہ(شخص)صاحب میلاد کی عبادت کرنےوالا نہیں سمجھا جائےگابشرطیکہ محفل میلاد میں یہ کسی اور شرکیہ عمل کا ارتکاب نہ کرےہاں!البتہ میلاد کا منانا بجائے خود ایک ایسی بدعت ہےکہ اس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا نہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اورنہ ہی سلف صالح رضی اللہ عنہم نےاسےکیا، لہٰذایہ بدعت ہےخواہ اس کا مقصد اچھا ہی ہو کیونکہ تمام عبادات توقیفی ہیں۔لہٰذااللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےحکم کےبغیر کسی کو یہ اختیارنہیں ہےکہ وہ ازخود عبادت کی کسی صورت کو اختیار کرے۔سچی بات یہ ہےکہ میلاد کی یہ محفلیں دین میں بہت بڑی مصیبت ہیں ان کی وجہ سےاس قدر شرک اورفسادپیدا ہوتاہےکہ اسےاللہ تعالیٰ ہی جانتاہے’’فانا للّٰه وانا اليه راجعون‘‘ ہم اللہ تعالیٰ سےیہ دعا کرتےہیں کہ وہ مسلمانوں کےحالات کی اصلاح فرمادے، انہیں دین میں فقاہت عطا فرمائےاورانہیں اتباع سنت اورترک بدعت کی توفیق عطا فرمائے۔انه سميع مجيب! ص۳۰۴حاشیہ(۱) ٭ ’’اس طرح کےمسائل میں لیث بن ابی سلیم یاابن قیم کی رائےکےمطابق عمل نہیں کیاجاسکتا ۔‘‘ شارح نے یہاں جو بات ابن ابی سلیم، وھب بن منبہ اورابن قیم کےحوالہ سےذکر فرمائی ہے، اس پر شیخ حامد کا اعتراض صحیح نہیں بلکہ شیخ حامد کا یہ اعتراض بالکل غلط ہے کیونکہ قرآن کریم اور بیری کے درخت کے پتوں کے ساتھ علاج مباح دواؤں کےساتھ علاج کےقبیل سےہے۔یہ باب بدعات سےنہیں ہےبلکہ یہ باب التداوی میں سے ہے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :’’اللہ کے بندو!علاج کرو لیکن حرام چیزوں کے ساتھ علاج نہ کرو ۔‘‘سنن ابی داود کی کتاب الطب میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن میں موجو دپانی پرپڑھ کردم کیا اوراس سے مریض پر چھینٹے مارے اس سے بھی معلوم ہواکہ بیری کے پتوں اوردم شدہ پانی کے ساتھ مریض کے علاج کرنے اورمریض پر اس کے چھینٹے مارنے میں ازروئے شریعت کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ د م کے الفاظ شرک وبدعت سے پاک ہوں اوراستعمال کی جانے والی دوامباح ہو۔ واللہ ولی التوفیق! ص۳۷۳حاشیہ(۱) ٭ ’’نسخ کا یہ دعوی بہت عجیب ہے ۔‘‘ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کیونکہ سلف کے ہاں فقہا ءکی نسبت نسخ کے بہت وسیع معنی ہیں کیونکہ سلف نسخ کے لفظ کو مطلق کی تقیید اورعام کی تخصیص کے لیے استعمال کرتے ہیں۔کیونکہ ان کا مفہوم اس سے مختلف ہوتا ہے جونص
Flag Counter