﴿قُلْ أَبِاللّٰه وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿٦٥﴾ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ﴾ (التوبۃ۹ /۶۵۔۶۶)
’’ کہوکیا تم اللہ اوراس کی آیتوں اوراس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے، بہانے مت بناؤ تم ایمان لانے کے بعدکافرہوچکے ہو ۔‘‘
ہمیں نہیں معلوم کے اہل علم میں سے کسی نے یہ کہا ہو کہ تعویذ آیات الٰہی کے ساتھ مذاق ہیں اورپھر لٹکانے والوں کاعمل بھی ا س کی نفی کرتا ہے کیونکہ وہ نفع وبرکت کی امید سے لٹکاتے ہیں، ان کا مقصد استہزاء یا مذاق نہیں ہوتا جیسا کہ اس پر غورکرنے سے معلوم ہوتا ہے ۔واللہ المستعان۔
ص۱۴۵، ۱۴۶حاشیہ(۱)
٭ ’’اسی طرح کھانے پینے کی ہر وہ چیز یا کوئی اورچیز جس کا نام غیر اللہ کی نذر یا تقرب رکھا جائے نیز وہ کھانا جسے ان قبروں کے مجاوروں اورطاغوتوں میں تقسیم کرنے کے لیے تیار کرایا جائے۔۔۔۔ ۔‘‘
یہ مقام تفصیل طلب ہے، اگرمراد یہ ہے کہ غیراللہ کی عبادت اورتقرب کی وجہ سے شرک ہے تویہ بات صحیح ہےکیونکہ کسی کے لیے یہ بات جائز نہیں ہےکہ وہ عبادت کی کسی بھی صورت کے ساتھ غیراللہ کی پوجاکرے خواہ وہ نبی ہویاکوئی اور!لاریب!!مردوں کے لیے کھانا، پینا یا نقدی وغیرہ امید اورخوف سے پیش کرنا خواہ وہ نبی ہوں یا ولی یا بت وغیرہ تویہ غیراللہ کی عبادت میں داخل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت وہ ہے جس کا اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہواوراگرشیخ حامد کی مراد یہ ہے کہ وہ نقدی، کھانا پینا اورزندہ حیوانات جن کو ان کے مالکوں نے انبیاء واولیاء کے لیے پیش کیا ہو تو انہیں پکڑنا اوران سے نفع اٹھا نا حرام ہے، تویہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ وہ اموال ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہےکیونکہ ان اموال کے مالک ان سے بے نیاز ہوچکے ہیں اوریہ مردارکے حکم میں بھی نہیں ہیں۔لہذا جو لوگ ان اموال کو لے لیں، ان کے لیے یہ مباح ہیں جیسا کہ دیگر وہ تمام ایسے اموال جن کے مالکان نے ان سے بے نیاز ہوکر انہیں ترک کردیا ہو کہ جو انہیں لینا چاہے لے لے جیسا کہ زمیندارخوشوں اورکھجور کے درختوں کے مالک کھجوروں وغیرہ کو فقراء کے لیے چھوڑ دیتے ہیں اوراس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اموال اپنے قبضہ میں لے لیے تھے جو لات کے خزانوں سے برآمد ہوئے تھے اورانہی اموال ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عروہ بن مسعود ثقفی کے قرضوں کو ادافرمایا تھا، طاقت کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان اموال کو اپنے قبضہ میں لینے سے اس لیے نہیں رکے کہ انہیں لات کے نام پر پیش کیا گیا تھا، لیکن یہ واجب ہے کہ جب جاہلوں اورمشرکوں کو اس طرح مال پیش کرتے ہوئے دیکھے توانہیں سمجھائے اوربتائے کہ یہ شرک ہے تاکہ خاموشی سے اوران مالوں کو لے لینے سے وہ یہ نہ سمجھیں کہ غیراللہ کے نام پر ان مالوں کو پیش کرنا اوراسے ذریعۂ تقرب سمجھنا جائز ہے۔شرک تو سب سے بڑا گناہ ہے، لہذا اس کا ارتکاب کرنے والے کی تردید کرنا واجب ہے۔ہاں البتہ کھانا اگرمشرکوں کے ذبیحہ جانوروں کے گوشت یا چربی یا شوربے سےبنایا گیا ہوتووہ حرام ہے کیونکہ مشرکوں کا ذبیحہ مردارکے حکم میں ہے، لہٰذا وہ حرام ہے اور اس کے ساتھ ملنے والا کھانا بھی نجس ہے لیکن وہ روٹی وغیرہ جس میں مشرکوں کے ذبیحہ وغیرہ کی کسی چیز کی آمیزش نہ ہو تو وہ استعمال کرنے والے کے لیے حلال ہے، اسی طرح نقدی وغیرہ بھی حلال ہے جیسا کہ قبل ازیں بیان کیاجاچکاہے۔واللّٰه اعلم۔
ص۱۵۴حاشیہ(۲)
|