مطلق اورنص عام سے سمجھ میں آتا ہے۔سورہ ہود کی آیت مطلق ہے اس سے بظاہریوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے طلب گارکواس کے اعمال کے مطابق اس کی مراددی جاتی ہے۔جب کہ سورۃ الاسراءکی آیت نے یہ بیان کیا ہے کہ دنیا بھی اسی قدرملتی ہے جس قدر اللہ تعالیٰ چاہے اوراسی کو ملتی ہے جس کے لیے اللہ چاہے تواس سے معلوم ہوا کہ دنیا کے طلب گارکو اپنی خواہش کے مطابق دنیا صرف اسی وقت ملتی ہے۔جب اللہ تعالیٰ چاہے اورکبھی یوں ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے لیے عمل توکرتا ہے لیکن دنیا اسے نہیں ملتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا اوریہ بات بہت ہی واضح ہے ۔واللہ اعلم۔
ص۳۷۸حاشیہ(۲)
٭ ’’ بردچغہ کی طرح ہوتی ہے ۔‘‘
یہ بات محل نظر ہے کیونکہ صحیح بات یہ ہے کہ برد چغہ کی طرح نہیں بلکہ یہ اورچیز ہے، چنانچہ’’القاموس‘‘ میں ہے کہ برد ضمہ کے ساتھ ہے اوراس کے معنی دھاری دار کپڑے کے ہیں، اس کی جمع’’ابراد‘‘، ’’ابرد، اور’’برود‘‘ ہے اوراس سے مراد وہ چادریں ہیں جنہیں اوڑھ لیا جاتا ہے ۔‘‘
ص۴۲۲حاشیہ(۱)
*’’باقی رہا اوامراورنواہی کی تبلیغ میں حیا ۔۔۔ ۔‘‘الخ۔
یہ ایک اچھی بات ہے، شارح نے جس روایت کو ذکر کیا ہے اس کے، جوا ب میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے(یاد رہےشارح نے یہ کہا ہے کہ بعض سندوں سے یہ الفاظ واردہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے انہیں منع کرنے سے حیا مانع تھی) کہ اگر یہ روایت صحیح ہو تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے حیا مانع تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بذریعہ وحی ممانعت کے نزول سے قبل، کسی کام سے منع فرمادیں خواہ اسے ترک کردینا مستحسن ہی کیوں نہ ہو لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے منع نہیں فرمایا کرتے تھے ۔جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ لیلۃ القدر کو رمضان کی آخری سات راتوں میں تلاش کرو کیونکہ جب بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مسلسل یہ خواب آیا کہ یہ رات رمضان کی آخری سات راتوں میں سے ایک رات ہے تویہ خواب اس بات کی دلیل بن گئے کہ ان سات راتوں میں عبادت کے لیے اوربھی زیادہ کوشش کرنی چاہئے۔ ص۴۲۲حاشیہ(۲)
٭ ’’اس حدیث کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبل از نبوت کے واقعات کے بارے میں خبر دینا چاہتے ہیں ۔‘‘
شیخ حامد کا اس بات سے مقصود یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سچے خواب کے بارے میں جو یہ فرمایا ہے کہ یہ نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماضی میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی خبر دی ہے حالانکہ بات یہ نہیں بلکہ اس باب میں وارد روایات اس امر پر دلالت کناں ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ماضی ومستقبل میں جس خواب کی خبر دینا ہے خواہ اس کا تعلق ماضی سے ہو یا مستقبل سے، سچے خواب مفید ہوتے ہیں اوران سے بشارت حاصل ہوتی ہے، ان کا فائدہ یہ ہے کہ یہ نبوت کاپینتالیسواں بعض روایات کے مطابق چھیالیسواں اوربعض کے مطابق سینتالیسواں حصہ ہیں اوراگر ان روایات سے مراد وہ ہوتی جو شیخ حامد نے بیان فرمائی ہے تو احادیث کے یہ الفاظ مختلف نہ ہوتے اس تنوع کی وجہ ۔واللہ اعلم۔
یہ ہے کہ سچا خواب بجائے خود دیکھنے والے کی صلاحیت اوراس میں مخفی ان قرائن وشواہد کی وجہ سے مختلف ہوتا ہے جو خواب کے سچا ہونے پر دلالت کرتے ہیں جیسا کہ علماء نے اسے ذکر فرمایا ہے۔
|