زندہ ہیں، آخرزمانہ میں آسمان سے نازل ہوں گے اوران امورکو سرانجام دیں گے جو ان کے سپرد کیے جائیں گے، جیسا کہ اس کی تفصیل ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے ملتی ہے۔
اس کے بعد پھر حضرت عیسی علیہ السلام پر وہ موت طاری ہوگی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے لکھ رکھی ہے۔لہذا معلوم ہوا کہ آیت میں مذکورہ لفظ’’توفی‘‘ کی موت سے تفسیر کرنا ایک ضعیف اورمرجوح قول ہے اوراگر اس قول کو صحیح فرض بھی کرلیا جائے تو موت سے مراد وہ موت ہوگی جو آسمانوں سے نزول کے بعد ان پر وارد ہوگی اورآیت میں تقدیم وتاخیر ہے کیونکہ حرف واوترتیب کا متقاضی نہیں ہوتا جیسا کہ اہل علم نے اسے بیان کیا ہے، واللہ الموفق!
جو شخص یہ کہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو قتل کردیا گیا یا پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا توقرآن مجید بڑی صراحت کے ساتھ اس قول کی تردید کرتے ہوئے اسے باطل قراردیتا ہے، اسی طرح اس شخص کا قول جو یہ کہے کہ حضرت عیسی کوآسمانوں پر نہیں اٹھایا گیا بلکہ وہ کشمیر کی طرف ہجرت کرگئے تھے، وہاں عرصہ دراز تک رہے اور پھر وہاں طبعی موت فوت ہوگئے تھے، لہذا وہ قیامت سے پہلے نازل نہیں ہوں گے بلکہ نازل ہونے والی حضرت عیسی علیہ السلام کے مثیل کوئی دوسری شخصیت ہوگی تو یہ قول بھی بالکل باطل ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراءاورکذب ہے۔حضرت مسیح علیہ السلام اس وقت تک تو نازل نہیں ہوئے لیکن وہ زمانہ مستقبل میں ضرورنازل ہوں گے جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر دی ہے ۔مذکورہ تفصیل سے سائل اوردیگر لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جو شخص یہ کہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو قتل کردیا یا پھانسی پر لٹکادیا گیا تھا یا کہ کہے کہ وہ کشمیر کی طرف ہجرت کرگئے اوروہاں طبعی موت فوت ہوگئے تھےاورآسمانوں پر نہیں اٹھا ئے گئے یا یہ کہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمانوں سے نازل ہوچکے ہیں یا یہ کہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نہیں بلکہ ان جیسی کوئی اورشخصیت آسمانوں سے نازل ہوگی تووہ اللہ تعالیٰ پرافتراءپردازی کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی تکذیب کرتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی تکذیب کرے، وہ کافر ہے ۔واجب یہ ہے کہ اس سے ان اقوال سے توبہ کروائی جائے اورکتاب وسنت کے دلائل کی روشنی میں اس کے سامنے مسئلہ کو واضح کیا جائے، اگروہ توبہ کرکے حق کی طرف رجوع کرے توبہت خوب ورنہ اسے کافر قراردیتے ہوئے قتل کردیا جائے گا۔
اس مسئلہ سے متعلق دلائل بہت زیادہ بھی ہیں اور مشہورومعروف بھی ہیں، مثلا اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں سورہ نساء میں فرمایا:
﴿وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ﴿١٥٧﴾ بَل رَّفَعَهُ اللّٰه إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللّٰه عَزِيزًا حَكِيمًا﴾ (النساء۴ /۱۵۷۔۱۵۸)
’’ اور انہوں نے عیسی کو قتل نہیں کیا اورنہ انہیں سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو ان کی سی صورت معلوم ہوئی اورجولوگ ان کے بار ےمیں اختلاف کرتے ہیں وہ ان کے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں اورپیروی ظن کے سوا ان کو اس کا مطلق علم نہیں اورانہوں نے عیسی علیہ السلام کو یقینا قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھالیا اوراللہ غالب (اور)حکمت والا ہے ۔‘‘
اسی طرح متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام ایک حاکم عادل کی حیثیت سے آخرزمانہ میں نازل ہوں گے مسیح ضلالت (دجال)کو قتل کریں گے، صلیب توڑدیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ ختم کردیں گےاورصرف اسلام قبول کریں گے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ متواتراحادیث ہیں جو قطعی طورپر
|