﴿إِذْ قَالَ اللّٰه يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ﴾ (آل عمران۳ /۵۵)
’’اس وقت اللہ نے فرمایا کہ عیسٰی میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھالوں گا ۔‘‘
اس سلسلہ میں کئی اقوال ہیں جن میں سے ایک قول یہ ہے کہ اس سےمراد وفات (موت)ہے کیونکہ جو شخص باقی دلائل پر غورنہ کرےاس کےسامنے اس آیت کے بظاہر یہی معنی ہیں اورپھر اسی لیے بھی کہ اس معنی میں یہ لفظ قرآن مجید میں کئی باراستعمال بھی ہوا ہے، مثلا :
﴿قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ﴾ (السجدۃ۳۲ /۱۱)
’’ کہہ دو کہ موت کا فرشتہ جوتم پر مقررکیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے ۔‘‘
اورارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا ۙ الْمَلَائِكَةُ﴾ (الانفال۸ /۵۰)
’’اورکاش اس وقت (کی کیفیت )دیکھو جب فرشتے کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔‘‘
اسی طرح کچھ اورآیات بھی ہیں جن میں’’ توفی ‘‘ کالفظ موت کے معنی میں استعمال ہوا ہے تواس معنی کے اعتبار سے آیت میں تقدیم وتاخیر ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ’’توفی‘‘کے معنی قبض کرنے کے ہیں، حافظ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں ائمہ سلف کی ایک جماعت سے یہ معنی بیان کیے ہیں اورخود انہوں نے بھی اسی قول کو پسند کیا اوردیگر اقوال پر اسے ترجیح دی ہے تواس قول کے اعتبار سے آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ’’اے عیسی!میں تجھے عالم ارض سے قبض کرکے عالم آسمان تک پہنچانے والاہوں جب کہ تو زندہ ہوگا اورتجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں ۔‘‘چنانچہ عرب اسی معنی میں اس لفظ کو استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیںتوفيت مالي من فلان یعنی ’’فلاں شخص سے میں نے اپنا سارامال قبضہ میں لے لیا ہے ۔‘‘
تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وفات نیند ہے کیونکہ نیند کو بھی وفات کہا جاتا ہے اوردلائل سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت نہیں ہوئے، لہذا واجب ہے کہ آیت کو وفات نیند پر محمول کیا جائے تاکہ تمام دلائل میں تطبیق ہوسکے، وفات کے نیند کے معنی میں استعمال کی مثال حسب ذیل ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ﴾ (الانعام۶ /۶۰)
’’اوروہی تو ہے جو رات کو(سونے کی حالت میں)تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔‘‘
اورفرمایا:
﴿اللّٰه يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى﴾ (الزمر۳۹ /۴۲)
’’اللہ لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اورجو مرے نہیں (ان کی روحیں)سوتے میں(قبض کرلیتا ہے)پھر جن پر موت کا حکم کر چکتا ہے، ان کو روک رکھتا ہےاورباقی روحوں کو ایک وقت مقررتک کے لیے چھوڑدیتا ہے ۔‘‘
پہلے قول کی نسبت آخری دو قول قابل ترجیح ہیں، بہر حال حق بات یہ ہے جو ناقابل تردید دلائل وبرا ہیں سے ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو زندہ آسمانوں پر اٹھالیا گیا تھا، لہذا وہ فوت نہیں ہوئے بلکہ ابھی تک آسمانوں میں
|