Maktaba Wahhabi

140 - 437
صحیح ہیں، علماء اسلا م کا ان کی قبولیت اوران کے ساتھ ایمان پر اجماع ہے جیسا کہ کتب عقائد میں مذکورہے ۔اگرکوئی شخص ان کا یہ کہتے ہوئے انکار کرے کہ یہ اخبار آحاد ہیں، ان سے قطعی علم حاصل نہیں ہوتا، یا ان کی یہ تاویل کرے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ آخر زمانہ میں لوگ حضرت مسیح علیہ السلام جیسے اخلاق رحمت وشفقت کواختیار کرلیں گے تویہ اقوال بالکل باطل، اسلام کے عقیدہ کے خلاف، بلکہ شریعت کی ثابت شدہ اورمتواترنصوص کے صریحا خلاف، شریعت بیضاءپر ظلم، اسلام اورپیغمبر معصوم علیہ الصلوۃ والسلام کی احادیث کے خلاف بدترین جرات، ظن اورخواہش نفس سے فیصلہ اورجادہ حق وہدایت سے خروج کے مترداف ہیں۔ایسا اقدام کو ئی ایسا شخص نہیں کرسکتا جس کا ایمان صادق ہو، علم شریعت میں رسوخ حاصل ہو اورجس کے دل میں شریعت کے احکام اورنصوص کی تعظیم ہو۔ اس طرح یہ کہنا کہ حضرت مسیح سے متعلق احادیث اخبارآحاد ہیں جو علم قطعی کا فائدہ نہیں بخشتیں تویہ بھی ایک بالکل فاسد قو ل ہے کیونکہ یہ احادیث بہت زیادہ ہیں۔کتب صحاح، سنن اورمسانید میں مختلف سندوں اورمتعددمخارج کے ساتھ موجود ہیں اورتواتر کی شرائط پر پوری اترتی ہیں، جس شخص میں شریعت کے بارے میں ادنی سی بھی بصیرت ہو وہ انہیں نظر انداز نہیں کرسکتا اورنہ انہیں ناقابل اعتمادقراردےسکتا ہے اوراگرہم یہ تسلیم کربھی لیں کہ یہ اخبارآحاد ہیں توتمام اخبارآحاد کے بارے میں تویہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ مفید علم قطعی نہیں ہیں بلکہ صحیح بات یہ ہے، جیسا کہ محقق اہل علم کا یہ قول ہے کہ اخبارآحاد کی سندیں جب متعدد اورصحیح ہوں اوران کے خلاف صحیح احادیث موجود نہ ہوں تو وہ مفید علم قطعی ہوں گی۔لہذا اس اعتبار سے جب ہم اس موضوع کی احادیث کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ قطعی طورپر صحیح ہیں، ان کی سندیں متعددہیں اوران کے خلاف صحیح احادیث بھی نہیں ہیں تویہ مفید علم قطعی ہیں خواہ ہم انہیں اخبارآحاد کا نام دیں یا یہ کہیں کہ کہ احادیث متواترہیں۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ شبہ بالکل باطل ہےاوراس کا قائل جادہ ٔحق وصواب سے دورہٹاہواہے اوراس سے بدتر اورزیادہ باطل قول اس شخص کا ہے جو اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی مخالفت کی جرأت کرتے ہوئے مذکورہ بالاآیات واحادیث کی غلط تاویل کرتا ہے۔اس شخص نے ایک طرف تو نصو ص کتاب وسنت کی تکذیب کی، انہیں باطل قراردیا اوردوسری طرف اس کا ان باتوں پر ایمان بھی نہیں ہے جوان نصو ص سے ثابت ہیں، یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کانزول، لوگوں میں عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کرنا، دجال کو قتل کرنا اوروہ دیگر امور جوان احادیث میں مذکور ہیں۔اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جوامت کے سب سے زیادہ ہمدرداورخیرخواہ تھے اوراللہ تعالیٰ کی شریعت کو سب سے بڑھ کرجاننے والے تھے، دجل وتلبیس کو بھی منسوب کیا ہے، اس کی بات سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ معاذ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ کچھ اورتھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ بظاہر کچھ اورہیں گویا نعوذباللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے سامنے افتراء کذب اوردھوکا پرمبنی الفاظ استعمال کیے، ایسی سوچ اورفکر سے اللہ کی پناہ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامقام ومرتبہ اس سے کہیں بلند وبالااورارفع واعلی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کی طرف کوئی ایسی گھٹیا بات منسوب کی جائے، یہ قول توان ملحدین کے قول سے مشابہت رکھتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ عوام کی مصلحت کی خاطر انبیاء کرام علیہم السلام دجل وتلبیس سے کام لیتے رہے کہ انہوں نے جو کچھ بظاہر کہا، درحقیقت وہ ان کا مقصود نہ تھا ۔اہل علم وایمان نے الحمد اللہ ایسے ملحدین کی تردید میں خوب لکھا ہے اوردلائل قاطعہ وبرا ہیں ساطعہ کے ساتھ ان کی ان لغو باتوں کو باطل قراردیا ہے۔ہم دلوں کی کجی، امورکے التباس، گمراہ کن فتنوں اورشیطان کے وسوسوں سے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہیں اورہم اللہ
Flag Counter