Maktaba Wahhabi

135 - 437
’’تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ اللہ اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الہٰ(معبود)ہے نہ کوئی رب۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے معیت عامہ کی آیات کو علم سے شروع کیا اور علم ہی پر ختم کیا ہے تاکہ بندے یہ جان لیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے بندوں کے حالات اور تمام معاملات کو جانتا ہے، اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ ان کے گھروں میں، ان کے غسل خانوں میں یا دیگر مقامات پر ان کے ساتھ مختلط ہےکہ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی اس سے بہت پاک ہے۔معیت کے معنی یہ بیان کرنا کہ وہ مخلوق کے ساتھ اپنی ذات کے ساتھ مختلط ہے، تو یہ ان اہل حلول کا قول ہے، جن کا یہ گمان ہے کہ ان کا معبود اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے، یہ اللہ تعالیٰ کو اس بات سے تو پاک قرار دیتے ہیں کہ وہ عرش پر مستوی ہو اور اپنی مخلوق سے بلند ہو لیکن اس بات سے اللہ تعالیٰ کو پاک قرار نہیں دیتے کہ وہ غلیظ اور گندی جگہوں پر موجود ہو۔اللہ تعالیٰ انہیں ذلیل ورسوا کرے، ائمہ سلف صالح مثلا احمد بن حنبل، عبد اللہ بن مبارک، اسحاق بن راھویہ، ابو حنیفہ اور ان کے بعد کے ائمہ ھدی مثلا شیخ الاسلام ابن تیمیہ، علامہ ابن قیم اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ان لوگوں کی تردید میں بہت کچھ لکھا ہے۔ اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ وَهُوَ مَعَكُمْ اور اس کے ہم معنی آیات سے یہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ظاہری یاباطنی طورپرمخلوقات کے ساتھ مخلوط وممزوج ہے کیونکہ مع کا لفظ کسی صورت بھی اس مفہوم پر دلالت کناں نہیں ہے، اس کی زیادہ سے زیادہ جو دلالت ہے وہ کسی امر میں مصاحبت، موافقت اورمقارنت پرہے اور یہ اقتران ہرجگہ اس کے مناسب حال ہوگا ابوعمر طلمنکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تمام اہل سنت مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ﴿وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ﴾ (الحدید۵۷ /۴) اس جیسی دیگر آیات کے معنی یہ ہیں کہ وہ اسے جانتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اقدس کے اعتبارسےآسمانوں سے اوپر اپنے عرش معلی پر مستوی ہے جیسا کہ اس کی کتاب اورجلیل القدرعلماءامت وائمہ سلف کے ارشادات سے ثابت ہے اوراس کے آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہونے کے بارے میں ان میں سے کسی کا بھی اختلاف نہیں، چنانچہ ابونصر سجزی فرماتے ہیں: ’’ہمارے ائمہ سفیان ثوری، مالک، حمادبن سلمہ، حماد بن زید، سفیان بن عیینہ، فضیل، ابن مبارک، احمد اوراسحاق رحمۃ اللہ علیہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات گرامی کے اعتبارسے عرش پراوراپنے علم کے اعتبارسے ہرجگہ ہے ۔‘‘ ابوعمربن عبدالبرفرماتے ہیں: ’’وہ علماء صحابہ وتابعین جن سے علم تفسیر منقول ہے، وہ ارشادباری تعالیٰ ﴿مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَ‌ابِعُهُمْ ﴾کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وہ عرش پر مستوی ہے لیکن علم کے اعتبار سے ہرجگہ ہے۔اس مسئلہ میں حضرات صحابہ وتابعین میں سے کسی بھی ایسے شخص نے مخالفت نہیں کی جس کا قول قابل حجت ہو ۔‘‘ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ ارشادباری تعالیٰ: ﴿وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللّٰه بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‌﴾ (الحدید۵۷ /۴) ’’اورتم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہےاورجوکچھ تم کرتے ہو، اللہ اس کو دیکھ رہا ہے ۔‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کا نگہبان وگواہ ہے خواہ تم جہاں کہیں اورجس جگہ بھی ہو، بروبحر میں ہو یا دن رات کی کسی گھڑی میں ہو، اپنے گھروں میں رہ رہے ہو یا جنگلوں میں، تمہاری یہ تمام حالتیں اس کے علم
Flag Counter